پاکستان کی حالیہ سیاست پر بات کرنے سے پہلے ہمیں عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ کے بھائی لارڈ زیک گولڈ سمتھ کے حالیہ بیان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے برطانوی دفتر خارجہ نے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے اور زیک کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے ۔ زیک نے کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ عمران خان جلد اقتدار میں واپس آئے گا کیونکہ وہ Least Corruptible لیڈر ہے یعنی اس میں بدعنوانی کا شائبہ تک نہیں۔ گویا پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی بازگشت لندن پہنچ گئی ہے اور حکومت برطانیہ سفارتی طور پر پاکستان کی نئی حکومت سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ زیک گولڈ سمتھ نے میئر آف لندن کے انتخاب کے موقع پر عمران خان کی بھرپور حمایت کے باوجود وہ پاکستانی لیڈر صادق خان سے بری طرح شکست کھا گئے تھے اس موقع پر عمران خان کے زیک کی حمایت کرنے پر لندن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی عمران خان کے خلاف ہو گئی تھی جس کا نتیجہ صادق خان پاکستان کے پہلے تارک وطن تھے جو لندن کے میئر بنے۔
عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ یہ سیاسی رسوائی عمر بھر ان کا پیچھا کرے گی اور وہ ایک دفعہ پھر اقتدار کی غلام گردشوں میں وزیراعظم ہاؤس واپس آنے کے لیے اپنے سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ اس دشت کی سیاحی کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہے اس وقت وہ اپوزیشن کی حیثیت سے صحرا نوردی کا شکار ہیں اور محرومی اور محکومی کا یہ سفر طویل بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ بے نظیر بھٹو دوبار بلکہ نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے لیکن عمران خان کی واپسی ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ واپسی موجودہ حالات میں اتنا آسان نہیں ہے۔
وہ 1996ء میں سیاسی افق پر نمودار ہوئے مگر 2011ء تک صرف ایک سیٹ جیت سکے۔ 2011ء پارٹی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2013ء کے انتخاب میں انہیں 30 سے زیادہ سیٹیں ملیں لیکن حکومت کرنے کا خواب پورا نہ ہوا۔ اس کے بعد ان کی سیاست میں ایک بہت بڑا موڑ آیا اور 2018ء سے پہلے انہوں نے پارٹی پالیسی میں ناقابل یقین تبدیلی کر کے Electables کو پارٹی میں لانا شروع کر دیا جس سے پارٹی کی نظریاتی ساکھ تقریباً ختم ہو گئی مگر پارٹی عوام میں مقبول ہو گئی اور پاکستان میں اقتدار کا حقیقی سرچشمہ بھی ان کے گھر کے آنگن میں پھوٹنے لگا اور وہ عوامی اور حقیقی ذرائع اقتدار کے کندھوں پر بیٹھ کر وزیراعظم بن گئے۔
اس عرصے میں ان کی پارٹی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہی۔ پرانے لوگ جن کے خون پسینے سے پارٹی اقتدار میں آئی تھی وہ سائیڈ لائن ہو گئے۔ غیر منتخب مشیروں کی فوج ظفر موج پارٹی پر قابض ہو گئی اور Electables اس ڈیل میں حصہ
نہ ملنے پر پارٹی سے برگشتہ ہونے لگے مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ دوسری طرف کابینہ اور ارکان پارلیمنٹ کی حیثیت عمران خان کے ذاتی ملازمین یا گھریلو نوکر چاکر جیسی تھی۔ سارے فیصلے وہ خود کرتے تھے ملک کی اربن مڈل کلاس جو اس پارٹی کو کامیاب بنانے کی ذمہ دار تھی وہ بھی پس منظر میں چلی گئی غربت میں اضافے اور مہنگائی سے نچلے طبقے کی زندگی اجیرن ہوتی چلی گئی مگر عمران خان کی نرگسیت خود پسندی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی اور خود کو عقل کل سمجھنے اور سیاسی مخالفین کے خلاف بے رحم پروپیگنڈا اور نیب جیسے ادارے کو اپنے مخالفین کے خلاف انتقام کا آلۂ کار بنانے پارٹی کے اندر بدعنوانی روکنے میں ناکامی جیسے معاملات اور دفاعی اداروں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نے ان کی حکومت کو بہت کمزور کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عثمان بزدار جیسا ڈمی وزیراعلیٰ بنانا اور بنائے رکھنے کی ضد پر اڑے رہنے سے بھی ان کے اقتدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور ایک وقت ایسا آیا کہ پارٹی سے ناراض لوگ اپوزیشن سے مل گئے اور عمران خان جو 2023ء اور 2028ء دونوں انتخابات میں فتح کی گارنٹیاں جیب میں ڈالے پھرتے تھے انہیں نہایت بے بسی اور شکست خوردگی میں وزیراعظم ہاؤس خالی کرنا پڑا۔
ان کے دور میں مخالفین کوئی ایسا نام نہیں جیسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ دھکیلا گیا ہو مگر آج تک کسی پر کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ نیب کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ پہلے ملزم کو پکڑتے تھے جیل میں ڈالتے تھے اس کے بعد اس کے بارے میں ثبوت تلاش کرنے کے مشن کا آغاز کیا جاتا تھا حالانکہ نیب ریفرنس اصولاً بنتا ہی تب ہے جب ٹھوس شہادتیں موجود ہوں مگر یہاں معاملہ الٹ تھا اس سلسلے میں ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن کی کہانی ایک ناقابل تردید مثال ہے جسے سیاسی مخالفین کی جیلوں میں ڈالنے کا ٹاسک دیا گیا مگر اس نے غیر قانونی کام کرنے سے انکار کر دیا اور نوکری سے استعفیٰ دے دیا جس پر اس کی پنشن تک روک دی گئی۔
عمران خان اصل میں سیاستدان نہیں تھے۔ یہ بات ان کے حامی اور مخالفین دونوں مانتے ہیں اور دونوں اس کو اپنے اپنے دلائل کی حمایت میں استعمال کرتے ہیں اگر وہ اپوزیشن کو برداشت کرتے اور ملکی مفاد کی خاطر مفاہمت سے کام لیتے تو ایک تو اپنی مدت پوری کرتے دوسرا ملک میں اتنی سیاسی فرقہ بندی انتہا پسندانہ سوچ اور عدم برداشت پیدا نہ ہوتی دوسرا یہ کہ ملک میں تاریخ کا بدترین آئینی بحران پیدا نہ ہوتا لیکن وہ سیاست سے نا آشنا تھے اور اپنی انا اور ضد پر سب کچھ قربان کر کے چلے گئے۔ غیر سیاسی اپروچ کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیاست اور معیشت میں کرکٹ گراؤنڈ کی مثالیں اور اصطلاح استعمال کرتے تھے جیسے آخری بال تک مقابلہ کروں گا وکٹ اڑا دوں گا آخر میں خود اپنی ہی وکٹ گنوا بیٹھے اور میچ یعنی اقتدار ادھورا چھور کر چلے گئے ان کی اسمبلی توڑنے والی حکمت عملی کو اعلیٰ عدالت نے ناجائز اور غیر آئینی قرار دیا گویا یہ ایک نوبال ثابت ہوئی۔
اب ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ ملک میں جلد از جلد نیا الیکشن ہو اور وہ دو تہائی اکثریت لے کر واپس آ جائیں مگر ان کی یہ خواہش بڑی معصومانہ ہے یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مذہب اور غیر ملکی سیازش کارڈ کھیل کر اپنی جگہ محفوظ کر لی ہے بات اتنی سادہ نہیں ہے اگلے الیکشن میں کوئی Electable ان پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ آخری حدوں کو چھو رہی ہے عوام ان کی دی ہوئی مہنگائی کے زخم چاٹ رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عوام الناس کی توجہ مہنگائی اور غربت سے ہٹا دی ہے۔ ان کے دور حکومت میں آٹا ، چینی ، پٹرول ، ادویات ، گیس کرونا فنڈز ہر معاملے میں کرپشن کے میگا کیس سامنے آئے بدعنوان ممالک کی فہرست میں پاکستان کی ریٹنگ پہلے سے زیادہ خراب ہوئی خارجہ پالیسی نچلی تریں سطح پر چلی گئی مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایک پاکستانی سفارت کار کا لکھا گیا خط ان کے سارے گناہ دھو دے گا جو مشکل نظر آتا ہے جب تک وہ پاکستان کی سیاست کے عالم بالا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہیں کرتے انہیں اقتدار سے ہجر کی راتیں تنہا کاٹنا پڑیں گی۔ انہیں سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا مگر ان کی حالیہ پالیسی صحت منداپوزیشن کرنے کی بجائے یہ نظر آتی ہے کہ
نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے