گزشتہ دس روز اور خاص کر ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ملک کی سیاسی تاریخ میں جو واقعات رونما ہوئے وہ ہماری قومی تاریخ میں اضطراب ، بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔
2018ء کے انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی کوشش رہی کہ بیساکھیوں کی مدد سے قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے متحرک اور سرگرم جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن رہے اور وہ اپوزیشن کی جماعتوں کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پریک جا کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ ہمارے سابق وزیر اعظم عمران خان جو ہزارہ برادری کے جنازوں کے موقع پر ضد لگائے بیٹھے تھے کہ بلیک میل نہیں ہوں گا، اور واضح پیغام دیا کہ پہلے مییتں دفن کرو پھر آئوں گا، مگر حکومت بچانے کے لیے تمام اتحادیوں کے دربار میں حاضر ہوئے اور ماضی کی کوتاہیوں کو درگزر کرنے کی درخواست کرکے آئندہ انھیں ساتھ لے کر چلنے کا وعدہ کیا۔ اقتدار بچانے کے لیے وہ یہاں تک چلے گئے کہ ان کی بائیس سالہ ’’سیاسی جدو جہد‘‘ کا اختتام پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کے حُسنِ انتخاب پر ہوا ، وہی چوہدری پرویز الہی جنھیں وہ ایک زمانے میں نہ جانے کس کس نام سے پکارتے تھے ۔
بظاہر تو جمہوری اور پارلیمانی سیاست کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں جو خان صاحب کو پیش آیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس عددی اکثریت اسی طرح لوٹ آئی جس طرح تحریک انصاف کو 2018ء کے انتخابات کے بعد ملی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خان صاحب اس عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا اعتماد سے کرتے کہ یہ وہ ہی عدم اعتماد کی تحریک تو تھی جس کے لیے وہ دعا کیا کرتے تھے۔ مگر عدم اعتماد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے وہ کون سا حیلہ، حربہ اور چال ہے جو سابق وزیراعظم نے اختیار نہ کی ہو ۔ جس ہندوستان کی ’’خودداری‘‘ کے قصے جناب نے اپنے آخری خطاب میں بیان فرمائے، اسی ہندوستان کے ایک وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے یہ نہ سیکھا کہ جب ان کے خلاف عدم اعتماد فقط ایک ووٹ سے کامیاب ہوئی تو انہوں نے نہ صرف کھلے دل سے اسے قبول کیا بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو ملک کی ترقی میں تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔مگر یہاں تو ایسااُدھم برپاہواکہ اعلیٰ ترین ادارے، تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے ارکانِ پارلیمنٹ، چینلز اور وہ تمام صحافی جنھوں نے اس مبینہ غیر ملکی سازش کے خط سے اختلاف کیا تحریک انصاف کے نزدیک غدار قرار پائے، اور خط بھی وہ جس خط کا معاملہ بقول غالبؔ یہ ہی لگتا ہے کہ :
غیر پھرتا ہے لیے یوں تیرے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چُھپائے نہ بنے
عمران خان کا مقدمہ یہ ہے کہ اُن کے خلاف بیرونی سازش کی گئی ہے او ر یہ روس کے حالیہ دورے کے نتائج ہیں جو انھیںاقتدار سے باہر نکالا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس اور امریکہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کا سرپرست اعلیٰ ہے۔ آج تک جاگیرداری کی مخالفت کی نہ کرنے والے، بے لگام سرمایہ داروں کی سرزنش نہ کرسکنے والے اور مزدورں کے حقوق استحصال کی کبھی بات تک نہ کرنے والے اور
سی پیک جیسے منصوبے کو اپنے دورِ اقتدار میں رگیدنے والے خان صاحب کا اسرار ہے کہ امریکہ نے ان کے خلاف سازش کی ہے، وہ اس سازش کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں اور اس جنگ کے ہر اول دستے میں شامل ہیں شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، فواد چوہدری ، امریکی نیشنلٹی رکھنے والے شہباز گِل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے اسد عمر، جو تحریک انصاف میںشامل ہونے کے بعد یہ ہی راگ الاپتے رہے کہ میں پچھتر لاکھ سے پچھتر ہزار پر کیسے آیا، مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ موصوف تحریک انصاف میں شامل ہی اسی شرط پر ہوئے تھے کہ اقتدار ملنے پر وزیر خزانہ بنائے جائیں گے ، اور اس میدان میں بھی موصوف نے جو’’ کامرانیاں‘‘ سمیٹی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔
اس سارے قصے میں خان صاحب نے بحران در بحران پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ہفتے کی رات جو صورتحال برپا تھی اس پر ایک سینئر ترین صحافی اور اینکر کو یہ کہنا پڑا کہ ٹی وی چینلز پر بتایا اور دکھایا جارہا ہے وہ اس صورتحال کا صرف بیس سے پچیس فیصد ہے جو اس وقت اسلام آباد میں ہے۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی، ائرپورٹس پر ریڈ الرٹ اور سپریم کورٹ اور اسلام ہائی کورٹ کا راتوں کو کُھل جانا کیا فقط اس لیے تھا کہ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد پر رائے شماری ہونی ہے؟۔ صورتحال نے اس وقت سنگین شکل اختیار کی جب عمران خان نے ایک اہم ترین شخصیت کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا، اور اس میں ناکام ہوئے۔
مگر یہ تو طے ہے کہ عمران خان نے اقتدار کے لیے آئین، قانون، پارلیمانی روایات اور اخلاقیات کو جس طرح سبو تاژ کیا ہے وہ افسوناک ہے۔ اسے اقتدار کی ہوس نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ جب آپ اپوزیشن میں تھے پارلیمنٹ ہاوس کے جنگلے توڑ ڈالے، پی ٹی وی پر حملہ کر دیا، قوم کو ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجنے کا مشورہ دیا، بجلی کے بل آپ نے جلائے، سول نافرمانی کے لیے آپ نے اُکسایا، چین کے صدر کے دورے میں آپ سب سے بڑی روکاوٹ بنے اور جب آپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نے زور پکڑا تو آپ نے پھر قدم قدم پر بحران کھڑا کیا بغیر یہ سوچے کہ اس کے ملک کی معیشت اور بین الاقوامی ساکھ پر کیا کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے ؟۔ کبھی ووٹنگ میں تاخیر، آخری وقت پر اسپیکر کا مستعفی ہونا، اور عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان ۔ ادھر کارکنوں کا حال یہ ہے کہ وہ کبھی سبز پاسپورٹ نذر آتش کرتے ہیں اور کبھی پرچم، ایک صاحب تو تارکین وطن سے اپیل کرتے ہیں ایک ماہ تک پاکستان پیسے نہ بھیجیں اور اندرون ملک شہریوں کو بنکوں سے تمام رقوم نکلوانے کا ’’درس‘‘ دیتے نظر آئے۔
افسوس کہ عمران خان جیسے کرکٹ کے بہترین کھلاڑی نے اسپورٹس مین شپ کا مظاہر ہ نہیں کیا۔ انھیں چاہیئے تھا کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپوزیشن میں بیٹھتے ، حکومت کو ٹف ٹائم دیتے اور اپنے سابقہ سیاسی فیصلوں پر نظر ڈالتے اور اپنی طاقت کو مجتمع کرکے اس مرتبہ ایلکٹیبلز کی بجائے اپنے پرانے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ میدان میں اترتے۔اب نو منتخب وزیر اعظم شہاز شریف نے اس مبینہ خط کے لیے ان کیمرہ کاروائی کا حکم دیا ہے۔ا گر تحقیقات ہوئی اور اگر اس خط کا انجام بھی پینتیس پنکچر والا ہوا تو عمران خان کہاں کھڑے ہوں گے؟