قیدِ تنہائی کاٹ رہا ہوں، انصاف میں دیر ہو جائے، اندھیر نہیں ہونا چاہیے: شاہ محمود قریشی

قیدِ تنہائی کاٹ رہا ہوں، انصاف میں دیر ہو جائے، اندھیر نہیں ہونا چاہیے: شاہ محمود قریشی
سورس: File

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئر مین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ  اڈیالہ جیل میں قیدِ تنہائی کاٹ رہا ہوں، بحیثیت وزیرِ خارجہ ہمیشہ اداروں کا دفاع کیا،  ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو اولیت دی۔  انصاف میں دیر ہو سکتی ہے، اندھیر نہیں ہونا چاہیے.

اسلام آباد کی عدالت میں سائفر کیس کی پیشی کے موقع پر شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ  ملک سے غداری کی ہے نہ کریں گے، ملک ہمارا ہے جو ہمیں عزیز ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میں نے کبھی ملک سے غداری نہیں کی، اعتماد سے کہتا ہوں کہ ملک کا وفادار ہوں، ملک سے غداری کی ہے تو پھانسی گھاٹ پر لٹکا دیا جائے، قبول کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ  موت برحق ہے، جیل میں جہاں قید ہوں اس سے چند قدم دور پھانسی گھاٹ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین ایک ہی تھے اور ہیں، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے، میں نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو اولیت دی۔ 


 
انہوں نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا، پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ سے متعلق قیاس آرائیاں اور غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔

بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کمرۂ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ میں اڈیالہ جیل میں قیدِ تنہائی کاٹ رہا ہوں، دیگر قیدیوں کی طرح مجھے جیل سے باہر چہل قدمی نہیں کرنے دی جاتی۔جیل میں مجھے گھر کا کھانا نہیں ملتا، عام قیدیوں والا ہی ملتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میری فیملی اس وقت سب سے زیادہ ٹارچر سے گزر رہی ہے، میں 9 مئی کے واقعات میں بے قصور ہوں، میں موجود ہی نہیں تھا، اس وقت میری اہلیہ بیمار تھیں، میں ان کی تیمار داری کر رہا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک معاشی اور آئینی بحران کا شکار ہے، جس کا حل شفاف انتخابات ہیں، ذاتی انا سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا، ملک مشکل میں ہے، اپنے رویوں پر سب کو نظرِ ثانی کرنی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت وزیرِ خارجہ ہمیشہ اداروں کا دفاع کیا، انصاف میں دیر ہو سکتی، اندھیر نہیں ہونا چاہیے.

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے یہ بھی بتایا ہے کہ فیملی سے کل ملاقات ہوئی ہے، بچے اور اہلیہ اڈیالہ جیل آئے تھے۔

مصنف کے بارے میں