قرآن عظیم کے علاوہ تاریخی حوالے سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت سی حکایات، روایات اور واقعات مشہور اور زبان زد عام ہیں۔ ایک دن حضرت موسیٰ ؑ بازار سے تیز قدموں کے ساتھ گزر رہے تھے ان کے ایک قریبی جاننے والے نے ان کو آواز دی مگر آپؑ نے ان سنی کر دی اور مزید سبک رفتار چال سے آگے بڑھتے گئے حتیٰ کہ بازار ختم ہوا کھلا علاقہ آ گیا وہ آوازیں دینے والا دوست اسی رفتار سے پیچھے پیچھے آتا گیا کہ بالآخر حضرت موسیٰ ؑ کے برابر آ گیا۔ وہ اپنا سوال بھول گیا جس کے لیے آوازیں دے رہا تھا اور آپؑ سے سوال کیا کہ کیا بات ہے آج آپؑ میری بات نہیں سن رہے اور غیر معمولی رفتار سے چل رہے ہیں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا کہ آج میں بہت مشکل میں ہوں، مجھے ایک مصیبت نے آن لیا ہے، میں بہت پریشان ہوں۔ سوال کرنے والا حیران ہو گیا کہ اللہ کے نبی ؑ جو کوہ طور پر اللہ کے پاس لوگوں کی التجائیں لے جاتے ہیں لوگوں کے نجات دہندہ ہیں یہ کس مصیبت میں ہو سکتے ہیں۔ اس نے سوال کیا، حضرت آپؑ کو کس مصیبت، آفت اور پریشانی نے آلیا ہے کچھ فرمائیے۔ حضرت موسیٰؑ گویا ہوئے کہ آج ایک احمق میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ میں اس سے گھبرا کر سبک رفتاری سے پیچھا چھڑا رہا تھا ورنہ تمہاری پہلی آواز پر ہی تمہاری بات سن لیتا۔ گویا احمقوں سے پیغمبروں نے بھی پناہ مانگی ہے۔ احمق کے لیے قوم، ذات، پیشے، مذہب، عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ احمقوں کی بے شمار قسمیں ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ ناخواندہ ہو بلکہ اگر یہ تعلیم یافتہ ہو گا تو اس پر زیادہ نکھار آئے گا۔
پاگل اور احمق میں فرق کے لیے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک دفعہ پاگل، پاگل خانے کی دیوار پر بیٹھا سڑک دیکھ رہا تھا۔ ایک آدمی کی کار کا ٹائر پنکچر ہو گیا، اس نے ٹائر تبدیل کیا مگر اس دوران اس کے چاروں نٹ سرکتے ہوئے گندی نالی میں چلے گئے، وہ پریشان ہو کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد دیوار پر بیٹھے پاگل نے اسے پوچھا، پریشان کیوں ہو؟ کار والے نے کہا، چاروں نٹ نالی میں گر گئے مل نہیں سکتے۔ پاگل نے کہا، تینوں پہیوں سے ایک ایک نٹ اتارو اور اس کو لگا لو، آگے جا کر کہیں سے چاروں خرید کر ان سب میں ایک ایک لگا لینا۔ یہ تجویز سن کر اس کار والے نے کہا تم اتنے عقل مند ہو تو اس پاگل خانہ میں کیوں ہو۔ اس پاگل خانے کے مکین نے جواب دیا۔ میں پاگل ہوں مگر تمہاری طرح احمق نہیں ہوں۔ لہٰذا احمق عام لوگوں میں پوری پوری زندگی گزار لیتا ہے مگر سمجھتا ہے کہ لوگ لا علم ہیں۔ وطن عزیز میں آپ کو دو مذہبی فرقوں کے لوگ (میں فرقوں کا نام نہیں لکھوں گا) خواہ مخواہ بحث میں الجھے نظر آئیں گے اور اب ایک تیسرا سیاسی فرقہ پیدا ہو گیا ہے۔ جو اس تاک میں رہے گا کہ کب کوئی خود کما کر کھانے والا ذی شعور اس کے ہتھے چڑھے اور وہ کھانا پینا ہر چیز بھول بھلا کر آپ کو اپنی گفتگو میں Engage کرے۔ اس سیاسی گورو کے لوگ آپ کو شادی بیاہ، مجلس، سوگ کی محفل، دکان، ہسپتال، بازار، سرکاری دفتر کہیں بھی چلے
جائیں آپ کو جانے بغیر آپ کو مخاطب کریں گے، ملکی حالات کا تذکرہ کریں گے پھر اپنے ویلنٹائن لیڈر جو کہ سیاسی گورو رجنیش ہے کے ناقابل قبول الفاظ جس کی معاشرت اجازت نہیں دیتی کو اپناتے ہوئے گفتگو کی کوشش کرے گا۔ اگر آپ کی قسمت ہاری ہوئی تو اس کی بات کا جواب دیں گے اور وہ بڑی مہارت سے آپ کے دو چار گھنٹے یا جتنا بھی وقت ہوا ضائع کر دے گا۔ آپ تو گئے کام سے اور وہ سمجھے گا کہ اس کو روزگار مل گیا۔ ٹوئٹر کو کھولیں تو چند پرانی فلمیں (صحافی، وکیل، سیاست دان اور اب ایک قانون سے وابستہ بھی نظر آئے گا) جو بے تحقیق سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلاتے چلے جائیں گے ایک تو کسٹم کی نوکری سے کرپشن پر میاں نوازشریف کے دور میں نکالا گیا تھا۔ دوسرا ایک سیاسی جماعت میں ہوتے ہوئے دوسری سیاسی جماعت کے لیے کام کرنے میں مشہور ہے۔ ایک مذہبی اور نعوذ بااللہ عاشق رسول کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ ایک کی آواز بینڈے یا ٹٹیری جیسی ہے، بہرحال آپ جانتے ہیں ایسے کردار لعنت کے طور پر ایک عرصہ سے ہمارے درمیان موجود ہیں، ہماری معاشرت کا روگ ہیں۔ میری یہ خواہش ہے کہ کاش میں بے باک ہوتا اور ان لوگوں سے کہتا کہ مجھے ٹوئٹر اور فیس بک پر ان فرینڈ کر دیں کیونکہ مسجد ضرار کے یہ کردار اپنوں کے روپ میں ہیں۔ ان کا گورو سال کے بارہ موسم گنوا دے، جرمنی جاپان کی سرحدیں ملا دے، پاکستان کی آبادی 1947 میں 40 کروڑ بتا دے، انڈہ، مرغی، کٹا، بچھڑا، معیشت بتا دے۔ پارلیمانی نظام میں اپوزیشن سے رابطہ کیا بات نہ کرے، مقتدرہ کے مسلط کرنے پر آ جائے اور جس ملک میں جائے وہاں کا نظام اپنانے کی بات کرے۔ چین، ترکیہ، سعودیہ، امریکہ، انگلینڈ اپنی ذات میں یہ فلموں والا سنجے دت ہے یا کوئی ملنگی اس کے فالوورز اس کو فالو کریں گے۔ ان کا گورو مذہبی ٹچ کا بڑا خیال رکھتا ہے، محرم میں اپنے آپ کو نعوذ باللہ حضرت امام حسینؓ کی جگہ فٹ کرے گا، ابھی پچھلے دنوں واہیاتی کی ہے کہ بڑے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ہیں اور بچے پی ٹی آئی میں جیسے رسول اللہﷺ کے وقت میں بچوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس گورو سے میری اتنی درخواست ہے کہ ملکی تاریخ، بین الاقوامی جغرافیے، موسموں سے جو مرضی کرے مگر اسلامی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ نہ کرے۔ غزوہ بدر میں 313 لوگوں میں دو کے علاوہ کتنے نوخیز بچے تھے؟ وہ بھی ضد کر کے ساتھ گئے تھے۔ بات لمبی ہو جائے گی کم از کم مذہبی بات کرنے سے پہلے مولوی طارق جمیل سے ہی پوچھ لیا کرے یا مولانا فضل الرحمن کا ہی ترلہ کر لے۔ یہ پہلا وزیراعظم تھا جو مسلط تو ہوا مگر نکالا آئینی طریقے سے گیا۔ 72 سالہ نوجوان واہیات گفتگو صرف اس لیے کرتا ہے کہ نوجوان لگوں۔ آئین، قانون، روایات، عزت، شرم، حیا، لحاظ کیا ہے اس کو نہیں معلوم، بس اس کو وزیراعظم لگا دو اور آرمی چیف کے اختیارات بھی دے دو۔ اس کے مسلط ہونے پر اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ یہ غیر جمہوری طریقہ دھاندلی سے آیا ہے لہٰذا انتخابات ہونے چاہئیں۔ اس نے اپنے دور اقتدار میں آئین کا جو حلیہ خراب کیا اس کی اصلاح اور اس کے دور میں کرپشن نااہلیت کی وجہ سے ملک جو کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا، مقروض ہوا اس کے اثرات کم کرنے کی کوشش ہے پھر اس کی جھوٹی بڑھک انتخابات بھی پوری ہو جائے گی۔ ابھی ملک میں سیلاب اور بربادی ہے یہ جلسے پہ جلسے کر رہا ہے۔ ٹیلی تھون کا ڈرامہ نئی نوٹنکی ہے۔ اس کی حالیہ جعلی مقبولیت کا پراپیگنڈا سن کر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ ضیاالحق کا ریفرنڈم تھا میری دادی مجھے پوچھنے لگیں، کیا ملک میں الیکشن ہے؟ میں نے کہا، جی۔ انہوں نے پوچھا، کون کون الیکشن میں کھڑا ہے۔ میں نے کہا، اکیلا ضیاالحق ہے۔ وہ بڑی حیران ہوئیں۔ انہوں نے جنگ عظیم اول دوم، دونوں دیکھی ہوئی تھیں، سارے ادوار کی چشم دید گواہ تھیں، بہت حیران ہوئیں کہ یہ اکیلا ہی الیکشن میں کھڑا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے عمران خان کی انتخابی مہم جو ابھی کسی جماعت نے شروع نہیں کی، دیکھ کر ضیا کا ریفرنڈم یاد آ گیا۔ صرف مقبولیت کے حوالے سے جب آج کل موصوف خبروں میں ہیں کبھی سیلاب کے فائدے، کبھی کہہ مکرنی سے جھوٹ بول کر خبروں میں رہتے ہیں، جواب میں سچ آئے تو پھر موضوع بنتا ہے اس طرح موضوع میں رہتے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے احمق، جھوٹے، کنجوس اور مفت بھرے سے بچیں زندگی میں سکون ہی سکون ہو گا۔ سیلاب زدگان کی انفرادی اور اجتماعی مدد کریں، جزاک اللہ۔