یہ کہانی شروع ہوتی ہے 23 مارچ 1944ء سے جب دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی ریاست South Carolina میں 2 سفید فام بچیاں اپنی سائیکل پر گھر سے ایک خاص پھول کی تلاش میں نکلیں۔راستے میں ان بچیوں نے دو سیاہ فام بچوں سے اس خاص پھول کے بارے میں پوچھا کہ یہ پھول کہاں سے ملیں گے جن پر ان سیاہ فام بچوں نے جواب دیا کہ ہم ان پھولوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔ اس کے بعد سفید فام بچیاں اپنے سائیکل پر آگے چلی گئیں۔یہاں بات ختم نہیں ہوئی۔۔۔مگر رات کو یہ سفید فام بچیاں اپنے گھر واپس نہیں آئیں۔ جب گھر والے اور اہل علاقہ بچیوں کی تلاش میں نکلے تو 1000 فٹ دور ایک کھائی میں بچیوں کی لاشیں ملیں۔
بچیاں کیونکہ سفید فام تھیں اس لئے اہم علاقہ میں کہرام مچ گیا۔ قاتل کو جلد از جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ تیز کیا تیز تر ہو گیاجبکہ پولیس کے پاس نہ تو کوئی گواہ تھا اور نہ ہی آلہ قتل برآمد ہوا۔ لوگوں کے پریشر کی وجہ سے پولیس کیس کو داخل دفتر بھی نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی کسی سفید فام کو بغیر کسی ٹھوس شواہد کے گرفتار کر سکتی تھی۔پھر پولیس نے پاکستانی پولیس کی طرح آسان شکار پکڑنے کا فیصلہ کیا۔ پولیس کو ایک شخص نے بتایا۔قتل ہونے والی سفید فام لڑکیوں نے ایک 14 سالہ جارج سٹینی اور اس کی 7سالہ بہن ایمی سے کوئی بات کی تھی۔بس اس شواہد پر جارج کے گھر چھاپہ مارا 14 سال کے جارج سٹینی کو گرفتار کر لیا اور اس کی بہن کو کم عمری کی وجہ سے چھوڑ دیا۔گرفتاری کے بعد پاکستانی پولیس کی طرح خوب چھترول کر کے اس سے گناہ قبول کروا لیا۔جارج کو گرفتاری کے دوران شہباز گل کی طرح نہ تو گھر والوں سے ملنے دیا اور نہ ہی وکیل سے ملاقات کی اجازت دی۔14سال کے جارج کے قتل کا ٹرائل کسی جج یا عدالت نے نہیں کرنا تھا۔ بلکہ اس وقت کے قانون کے مطابق اہل علاقہ کی جیوری (جسے پنجابی میں پنچائت کہتے ہیں) نے کرنا تھا۔ جیوری میں تمام لوگ بھی سفید فام تھے۔ کیونکہ اس وقت جنوبی ریاست امریکہ کے اس حصہ پرجمکرو لاء نافذ تھا اس لاء کے مطابق سیاہ فام ایک کم حیثیت لوگ ہیں۔ ان کی عبادت گاہیں، ریسٹورنٹ سکول سفر اور دوسری بہت سی چیزیں سفید فام سے الگ ہوں گی۔ سیاہ فام لوگ سفید فام لوگوں سے ہاتھ نہیں ملا سکتے تھے اور سیاہ فام حکومت کی بڑے عہدوں پر فائز بھی نہیں ہو سکتے اس لئے کوئی سیاہ فام جج یا جیوری کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔ 14 سال کے جارج کا ٹرائل شروع ہوا۔گواہ پیش ہوئے تمام گواہوں نے یہ گواہی دی کہ سفید فام لڑکیوں نے جارج سے بات کی تھی۔ لیکن کسی نے جارج کو قتل کرتے نہیں دیکھا تھا۔پولیس رپورٹ پیش ہوئی جو کہ بہت متضاد تھی۔ پولیس رپورٹ کے مطابق لڑکیوں نے جارج پر حملہ کیا اور جارج نے Self Defence میں ان لڑکیوں کو قتل کیا۔ جارج کا بڑی لڑکی پر دل آ گیا تھا وہ اس سے بدفعلی کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے دونوں کو قتل کر کے ان کو ہزار فٹ دور کھائی میں لے گیا اور جب زنا کرنے لگا تو لڑکی کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا اس لئے یہ چھوڑ کر وہاں سے آ گیا۔ اور آلہ قتل بھی قریب چھپا دیا جو ابھی تک پولیس کو نہ ملا۔
بدقسمتی سے جارج کو جو وکیل دیا گیا وہ بھی سفید فام تھا اور الیکشن پر کھڑا تھا۔ اس نے جارج کے حق میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی جارج کے خلاف پیش ہونے والے گواہ اور پولیس پر کوئی جرح کی کیونکہ وہ سفید فام کو ناراض کر کے اپنے ووٹ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
3 گھنٹے سے کم وقت میں ٹرائل مکمل ہو گیااور جیوری نے ٹرائل ختم ہونے کے دس منٹ بعد جارج سٹینی کو سزائے موت کی سزا سنا دی۔اس واقعہ کے بعد سفید فام کا غصہ سیاہ فام پر اور تیز ہو گیا۔ جارج کے گھر والے علاقہ چھوڑ کر روپوش ہو گئے۔اب 15 سال کا جارج تنہا اندھیری کال کوٹھڑی میں اپنی زندگی کے بقایا دن گزار رہا تھا اور اس دوران اسے اپنے گھر والوں سے ملنے کی اجازت بھی نہ تھی۔جارج کے گھر والوں نے گورنر کو درخواست دی۔ اس طرح کے ایک کیس میں سفید فام کو بیس سال کی سزا ہوئی ہے اس لئے جارج کی سزائے موت ختم کر کے عمر قید میں بدلی جائے۔لیکن گورنر بھی سینٹ کا الیکشن لڑ رہا تھا اور وہ سفید فام کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس طرح گورنر نے اپنی سینٹ کی سیٹ بچا کر انصاف کا قتل کر دیا اور درخواست خارج کر دی۔سفید فام بچیوں کی لاشیں ملنے کے 83 دن بعد 16 جون 1944 کو شام 7 بج کر 30 منٹ پہ جارج کو بجلی والی کرسی پر بیٹھا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
جارج 20 ویں صدی میں سزائے موت پانے والا سب سے کم عمر انسان تھا۔جارج کے خاندان نے 70 سال بعد 25 اکتوبر 2013ء کو دوبارہ اپیل کی۔جارج کو صاف شفاف ٹرائل نہیں ملا۔اپیل دو دن کی سماعت کے بعد منظور ہوئی اور جج Carmen T Mullen کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت ہوئی۔جس میں جارج کی بہن اور بھائی نے گواہی دی کہ واردات کے وقت ان کا بھائی ان کے ساتھ تھا اور اسے صاف ٹرائل نہیں ملا۔سفید فام قتل ہونے والی لڑکیوں کے گھر والوں کے بیانات ریکارڈ کرنے،پولیس رپورٹ کو ملاحظہ کرنے اور 1944ء کے گواہان کے بیان حلفی کو ملاحظہ کرنے کے بعد سات ماہ بعد 17 دسمبر 2014ء کو عدالت نے جارج سٹینی کو مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بے گناہ قرار دیا۔آلہ قتل نہیں ملاجارج کے خلاف کوئی گواہ نہیں ہے۔دو لاشوں کو 1 ہزار فٹ تک گھسیٹ کر لے جانا 14 سال کے جارج کے لئے ناممکن تھا۔جارج کم عمر تھا تحریری اعترافی بیان موجود نہیں ہے،پولیس کسٹڈی میں اعترافی بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔ٹرائل اور سزا میں جلدی کی گئی۔جج صاحبہ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہ ریاست شفاف ٹرائل دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی تھی۔آج پاکستان کی سیاسی اور عدالتی صورت حال بالکل اس واقعہ جیسی ہے۔جب لیڈر اپنے ووٹ اور اپنی کرسی بچانے کی خاطر انصاف کے ترازو میں بے انصافی کے باٹ ڈالتے رہیں گے۔قومیں ناانصافی کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی اور لاقانونیت جنم لیتی رہے گی۔