کالاباغ ڈیم پنجاب کی سرزمین پر بننے والا آبی منصوبہ ہے جو سیاسی بدمعاشیہ کی نذر ہوگیا۔ اس ڈیم کے لیے پہلا سروے غالباً برطانوی حکومت نے قیام پاکستان سے قبل 1873ء میں کیا تھا۔قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948ء میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کیا گیا۔ بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا پاکستان ورلڈ بینک اس مسئلے کو لے گیا۔ جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا۔ایوب خان نے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ضروری سمجھا مگر ایوب دور میں دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر زور و شور سے جاری تھی اس لیے کالا باغ ڈیم صرف کاغذوں تک محدود رہا۔ کالاباغ کی باری آنے سے پہلے ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی۔ بھٹو کے جمہوری دور میں پہلی بار اس ڈیم کو پاکستان کے لیے مضر قرار دیا گیا اور اس سے جان چھڑانے کی پہلی کوشش کی گئی۔کالا باغ ڈیم پر صحیح معنوں میں کام جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں خصوصی طور پر ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے رپورٹ تیار کی۔ 1983ء میں ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925 فٹ ہو گی۔ 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جاسکے گا۔ اس کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ درکار ہو گا اور یہ پورے ملک کے 50 لاکھ ایکڑ بنجر رقبے کو سیراب کریگا۔ 8 بلین ڈالر اس کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ 5000 میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔
جنرل ضیا الحق کے حکم پر کالا باغ کی تعمیر کیلئے دفاتر تعمیر کئے گئے، روڈ بنائے گئے اور مشینری منگوائی گئی۔ اے این پی (پشتون سرخوں) نے اعتراض کیا کہ کالا باغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا اس عذر کو دور کرنے کیلئے ڈیزائن میں تبدیلی لائی گئی اور ڈیم کی اونچائی کم کر دی گئی۔ سندھ میں موجود اس وقت کی ”سول سوسائٹی“ (سندھی سرخوں) نے بھی اعتراض اٹھایا کہ پنجاب سندھ کا پانی غصب کر لے گا یہ منصوبہ سندھ کے عوام کو منظور نہیں۔ تب جنرل ضیاء نے چاروں صوبوں کو پانی کی تقسیم کے ایک فارمولے پر راضی کیا اس معاہدے اور فارمولے کے مطابق پنجاب 37 فیصد، سندھ 33 فیصد، سرحد 14 فیصد اور بلوچستان 12 فیصد دریائی پانی لینے پر راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی جنرل ضیاء کو شہید کر دیا گیا۔یاد رہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان میں سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں۔ ضیاء کے بعد یہ منصوبہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ پاکستان پر دوبارہ جمہوریت مسلط ہوئی اور دونوں جمہوری حکومتوں نے دوبارہ اس منصوبے کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دینا شروع کر دیا۔جنرل پرویز مشرف نے کالاباغ سمیت ملک بھر میں 6 بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ”ڈیم نہیں بنائیں گے تو مر جائیں گے''۔ ان
منصوبوں میں نیلم جہلم، کالاباغ، بھاشا، منڈا، اکھوڑی اور کرم تنگی ڈیم شامل ہیں۔2005ء میں مشرف نے یہ اعلانات کیے اور 2007ء میں وکلاء تحریک کی وجہ سے اپنی وردی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 2008ء میں اس نے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم ان دو سال میں نئے سرے سے ان تمام ڈیموں کی فیزیبلٹی رپورٹ بنالی گئی۔ نیلم جہلم پر کافی کام نمٹا لیا گیا اور غازی بھروتھا منصوبے کو مکمل کر دیا گیا۔پھر جمہوریت آئی۔ اس بار پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے مہلک ثابت ہوئی۔بھاشا، کرم تنگی، منڈا اور اکھوڑی ڈیموں کو لٹکا دیا گیا۔ 2008ء میں مکمل ہونے والے نیلم جہلم منصوبے پر کام روک کر اس کو 2018ء تک کھینچ لیا گیا۔ لیکن سب سے بڑا ظلم کالاباغ ڈیم پر کیا گیا جس کو نواز شریف اور آصف زرداری نے ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کر دیا۔قوم کے ”وسیع تر مفاد ”میں کالاباغ ڈیم منصوبے کو بند کرنے کے کیا کیا نقصانات ہوئے ہیں اس پر سب سے آخر میں بات کرینگے۔ پہلے اس ڈیم کے فوائد اور اس پر ہونے والے اعتراضات پر بات کرتے ہیں۔
1۔ پاکستان کے تینوں بڑے ڈیموں تربیلا، منگلا اور چشمہ کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ کالا باغ ڈیم اکیلا 6 ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی ذخیرہ کرے گا۔ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔2۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کی 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرے گا۔ نہری پانی کی فی ایکڑ پیدوار آجکل تین لاکھ روپے سالانہ ہے۔ اس حساب سے صرف کالا باغ ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 15 ارب ڈالر کی زائد زرعی پیدوار ملے گی جس کے بعد پاکستان کو زرعی اجناس میں سے کچھ بھی درآمد نہیں کرنا پڑے گا البتہ پاکستان کی زرعی برآمدات دگنی ہو جائیں گی۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے، سندھ کے زیریں علاقے اور بلوچستان کے مشرقی حصے اس ڈیم کے پانی کی بدولت قابل کاشت بنائے جاسکتے ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع (کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان) کو زرعی مقاصد کے لئے مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا اور وہاں کی تقریباً 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت ہوجائیگی۔ جس کے بعد کے پی کے کو کسی بھی صوبے سے گندم خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور زرعی اجناس کی افغانستان برآمدات میں زبردست اضافہ ہوگا۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کو بھی اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوگا۔ سندھ میں خریف کی کاشت کے لیے پانی دستیاب ہوگا جس کی اس وقت شدید قلت ہے۔ سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس کالاباغ ڈیم سے بجھ سکے گی۔ اس زرعی پانی سے سندھ کی 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہونے کے علاوہ سیم زدہ لاکھوں ایکڑ زمین قابل کاشت ہوجائے گی۔بلوچستان کو اس ڈیم سے 15 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا ہے جس سے مشرقی بلوچستان کا تقریباً 7 لاکھ ایکڑ اضافی رقبہ سیراب ہوسکے گا اور شائد بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار وہاں لہلہاتی فصلیں دیکھنے کو ملیں۔3۔ کالا باغ ڈیم سے پاکستان 4 سے 5 ہزار میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرے گا۔ تقریباً ڈھائی روپے فی یونٹ کے حساب سے۔ اس وقت پاکستان 60 فیصد سے زائد بجلی تیل سے بنا رہا ہے جو ہمیں 20 روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔ صرف نواز شریف کے پانچ سال میں بجلی بنانے کے لیے خریدے گے تیل کا قرضہ 1 ہزار ارب روپے سے زائد تھا۔ یعنی سالانہ 200 ارب روپے۔ اگر کالا باغ ڈیم سے بننے والی بجلی سسٹم میں داخل ہوتی ہے تو یہ خرچہ آدھا رہ جائیگا اور عوام کو ملنے والے بجلی کے بل ایک تہائی۔4۔ سستی بجلی کی وجہ سے کارخانوں میں اشیاء کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو جاتی ہے جس کے بعد وہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی اشیاء کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔پاکستان میں لیبر پہلے ہی سستا ہے اگر پاکستانی کارخانوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے تو پاکستان میں بند ہونے والے تمام کارخانے چل پڑیں اور لاکھوں لوگوں کو فوری طور پر روزگار مل جائیگا۔ پاکستان کی برآمدات کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ پاکستان کی درآمدات کم ہو جائیں گی۔ سستی بجلی اور لیبر کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوگا جس کا مطلب مزید پیداوار، مزید روزگار اور مزید صنعتی ترقی۔5۔ پاکستان کو خشک کر دینے والے انڈین ڈیموں کے خلاف عالمی محاذ پر پاکستان کا کیس مضبوط ہوگا کہ پاکستان کے پاس ڈیم ہے اور پاکستان دریاؤں کا پانی ضائع نہیں کر رہا ہے۔6۔ کالاباغ ڈیم منصوبے میں کم از کم 60 ہزار لوگوں کو براہ راست ملازمتیں ملیں گی۔7۔ کالاباغ ڈیم کی جھیل میں پانی جمع ہونے سے ماحول پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں اورموسمی ماہرین کے مطابق کچھ عرصہ بعد قریبی اضلاع کے درجہ حرارت میں کمی اور بارشوں میں اضافے کا امکان ہے۔8۔ صرف کالا باغ ڈیم کی وجہ سے بڑھنے والی زرعی اور صنعتی پیداوار اور کم ہونے والی درآمدات کی وجہ سے پاکستان چند سال میں بیرونی قرضہ چکانے کے قابل ہوجائیگا۔9۔ پاکستان میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے یا انڈیا کے زیادہ پانی چھوڑ دینے کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے بعد آنے والے سیلاب بند ہو جائیں گے اور زائد پانی کو فوری طور پر ذخیرہ کر لیا جائیگا۔ یوں ہر سال ہونے والا اربوں روپے کا نقصان اور عوام کو پہنچنے والی تکلیف بند ہوجائیگی۔کالا باغ ڈیم کے فوائد ہی فوائد ہیں نقصانات کوئی نہیں اس کی تعمیر سے 2روپے یونٹ والی 4600میگا واٹ سستی بجلی سسٹم میں داخل ہوگی جس سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے سستی بجلی سے عوام کو مہنگی ہائیڈل بجلی سے نجات مل جائے گی فیول کی بچت ہوگی جس سے درآمدی بل میں کمی ہوگی۔یہ منصوبہ سندھ، سرحد، بلوچستان کے انتہا پسند سیاستدانوں کی بیان بازی اور دھمکیوں کی نذر ہوگیا اب جبکہ پی ڈی ایم اے کی حکومت ہے اور اس میں یہ تمام لیڈر شامل ہیں اس لیے میثاق معیشت پر عملی قدم اٹھاتے ہوئے اس کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے اور اس کی فوری تعمیر شروع کردی جائے تاکہ آئندہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جاسکے اور سیلابی پانی کو محفوظ کرکے سارا سال زراعت کو پانی فراہم کیا جاتا رہے۔