تل ابیب: اسرائیل کے خفیہ و حساس ادارے موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہیلیوی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے زیادہ قریب کرنے میں سب سے اہم و مرکزی کردار سابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی پالیسیوں نے ادا کیا ہے۔
اسرائیل کے مؤقر اخبار ہیرٹز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں افرائیم ہیلیوی نے اسرائیل کی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ساتھ بھی بات چیت کا آغاز کرے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نیتن یاھو کی بڑی غلطی تھی کہ انہوں نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو سبوتاژ کرنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ اس طرح ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کے زیادہ قریب ہو گیا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور حکومت میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے اس کو نکالنے کے لیے نیتن یاہو نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ اس کو اپنی کامیابی سمجھتے تھے۔ جس وقت ایران کو جوہری معاہدے سے امریکا نے نکالا اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تھی۔
افرائیم ہیلیوی کے مطابق اس حوالے سے انہوں ںے بہت سوچ بچار کی ہے اور وہ اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ بہت بڑی غلطی تھی تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس غلطی کا خمیازہ کیسے اور کس صورت میں بھگتنا پڑے گا۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر ہم معاہدے سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستبردار ہونے کے بعد پیش آنے والے حالات کا بغور جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہو گی کہ ایران کے خلاف اس کے بعد صورتحال زیادہ خراب ہوئی ہے۔
ہیرٹز کے استفسار پر افرائیم ہیلیوی کا کہنا تھا کہ اب خود اسرائیلی حکمران کہہ رہے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں اس وقت جتنا زیادہ قریب پہنچ چکا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں پہنچا تھا۔ اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ آپ کی سابقہ پالیسیاں سراسر غلط تھیں اور حکمت عملی ناقص تھی۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم نیتن یاہو کی یہ ناکامی تاریخی ناکامی میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔
افرائیم ہیلیوی نے زور دے کر کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کو توڑنا بہت بڑی غلطی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اب بھی اسی خیال کا حامی ہوں کہ اس آپشن کو نظرانداز کرنا اور خود کو محدود کرنا سراسر غلطی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھیں تو میں یہی کہوں گا کہ اب بھی آپ اس آپشن پر واپس نہ آ کر اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم نیتن یاہو کی ایک اور بڑی و سنگین غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ایران کے خلاف موساد کی خفیہ کارروائیوں کو شائع کرایا حالانکہ اس حوالے سے ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ ایران کو بدنام کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
ہیرٹز کے استفسار پر موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہیلیوی نے واضح طور پر کہا کہ جوہری معاہدہ ایک نامکمل معاہدہ تھا لیکن کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں بہرحال بہتر راستہ تھا کیونکہ وہ بات چیت کا آغاز ثابت ہو سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے اسرائیل اور ایران گفتگو بھی کر سکتے تھے جبکہ اسی طریقے سے مختلف آپشنز بھی سامنے آ سکتے تھے۔
اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سربراہ نے چین کی معاشی سرمایہ کاری پہ انحصار میں اسرائیل کو لاحق خطرات پر بھی بات چیت کی ہے۔
افرائیم ہیلیوی نے انٹرویو میں حماس سے براہ راست بات چیت کی تجویز پیش کی۔ واضح رہے کہ غزہ کے علاقے میں حماس کا مکمل کنٹرول ہے۔
واضح رہے کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے پہلے دور حکومت میں انہوں نے موساد کے سربراہ کے طور پر خدمات سر انجام دی تھیں۔