کابل: افغان طالبان نے ملک میں کرکٹ سمیت خواتین کے دیگر کھیلوں پر باضابطہ پابندی عائد کئے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ستمبر میں افغان ثقافتی کمیشن کے نائب سربراہ احمد اللہ واثق نے خواتین کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرکٹ میں جسم اور چہرہ نہیں چھپایا جاسکتا اور اسلام ایسے لباس کی اجازت نہیں دیتا جس سے بے پردگی ہو، لہٰذا ضروری نہیں کہ خواتین کرکٹ کھیلیں۔
سال 2001 میں امریکی حملے سے قبل افغانستان میں طالبان کی حکومت میں اس وقت بھی خواتین کے کھیلوں پر مکمل پابندی تھی اور ستمبر میں احمد اللہ واثق کے اعلان کے بعد سے خواتین کے کھیلوں کا مستقبل غیر واضح ہے جس کے باعث سینکڑوں خواتین کھلاڑی یا تو بیرون ملک جا چکی ہیں یا پھر خاموشی سے زندگی گزارنے میں مصروف ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ نے افغان کرکٹ بورڈ کے نومنتخب چیئرمین عزیز اللہ فضلی سے جب اس بابت سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے اعلیٰ حکام کیساتھ بات چیت ہوئی ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ سرکاری طور پر خواتین کے کھیلوں خصوصاً ویمن کرکٹ پر کوئی پابندی نہیں اور ہمیں خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
عزیز اللہ فضلی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے مجھے خواتین کو کرکٹ کھیلنے سے روکنے کا حکم نہیں دیا، افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم 18 سال قبل بنی تھی، تاہم ہمیں اس معاملے میں اپنے مذہب اور ثقافت کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، اگر خواتین شائستہ لباس پہنیں تو ان کا کھیلوں میں حصہ لینا معیوب نہیں، اسلام میں خواتین کو نیکر پہننے کی اجازت نہیں، جیسا کہ دوسری ٹیمیں پہنتی ہیں، خصوصاً فٹ بال میچ میں، لہٰذا ہمیں ان معاملات کا خیال رکھنا ہو گا۔