بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی وفات ایسا صدمہ ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتاوہ 26 اگست کو کرونا سے متاثر ہوئے علاج کے دوران طبیعت کبھی بگڑتی اور کبھی سنبھلتی رہی اتوار کو طبیعت زیادہ خراب ہونے پر صبح چھ بجے کے قریب کے آر ایل ہسپتال لایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اور خالقِ حقیقی سے جا ملے اُن کی وفات سے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے ساتھ پورا عالمِ اسلام سوگ میں ڈوب گیاہے وہ ایسے محسنِ پاکستان ہیں جن کے احسانات قوم بُھلا نہیں سکتی ڈر کر وقت گزارنے کے بجائے انہوں نے قوم کو عزت و وقار اور جرأت مندانہ طریقے سے زندگی بسر کرنے کا راستہ دکھایا کیا یہ کم ہے کہ ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل جارح ملک کو پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوتی حالانکہ اُسے پاکستان کے لفظ سے بھی چڑ ہے اور ہروقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی تگ ودو میں رہتا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے سپوت نے ملک وقوم کومحفوظ اور باوقارانداز میں زندگی بسرکرنے کے قابل بنادیا ہے اِتنے احسانات کے باوجود حکمران طبقے نے محسن پاکستان کو زندگی بھر وہ عزت واحترام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے پھربھی خودار شخص نے کم ہی کسی سے شکوہ کیا اکثر خاموشی سے صدمات کا سامنا کرتے رہے سفرِ آخرت سے قبل چار اکتوبر کووزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو لکھے خط میں وزیرِ اعظم اور پنجاب،کے پی کے اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کے بارے یہ لکھ کر کہ وہ میری موت کی خوشخبری سُننے کا انتظار کر رہے ہیں نے محب الوطنوں کی روح تک کو زخمی کر دیا ہے لیکن مراد علی شاہ بھی گلدستہ بھیجنے تک کیوں محدود رہے کیا وہ عیادت کرنے نہیں جا سکتے تھے کون سی مصلحتیں رکاوٹ تھیں؟ محسن پاکستان ایسا انمول ہیراتھے جس کی ہمیں من حیث القوم دل وجان سے قدر کرنی چاہیے تھی مگر حکمران اشرافیہ اغیار کے خوف سے لاتعلق رہا ملک وقوم کے لیے گراں قدر خدمات کے باوجود اُن سے غیر مناسب سلوک روا گیا
اُٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیں کس کے لیے، کس کس کا ماتم کیجئے
بھارت کی طرف سے ایٹمی تجربات کے بعدجب پاکستانی قوم خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگی تو یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے جنہوں نے قوم کا درد محسوس کیا اور ازخود پاکستان کے لیے خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی 17 ستمبر1974کو وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نام خط لکھ کر ایٹم بم بنانے کے لیے رضاکارانہ خود کو پیش کیا اور تجویز دی کہ سینٹری فیوجز کو استعمال میں لاکر بم بنانا زیادہ بہتر اور آسان ہو گا تجویز کی منظوری کے بعد کم وسائل مگر جذبے سے شب و روز کام کیا اور خان ریسرچ لیبارٹری کہوٹہ کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنایا بیرونی ملازمت کے دوران قائم ہونے والے روابط کو استعمال کرتے ہوئے جرمن، ڈچ اور برطانوی کمپنیوں کے ذریعے ضروری اجزا منگوائے حالانکہ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے طرح طرح کی
پابندیاں لگا رکھی تھیں اور محسنِ پاکستان کو اپنی جان کے حوالے سے بھی مصری، عراقی اور ایرانی سائنسدانوں کی طرح خطرات لاحق تھے مگر وہ ثابت قدم رہے اور پھر پاکستان کو پہلی مسلمان ایٹمی ریاست کا اعزاز دلانے اور پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے ساتھ بھارت کے غرور کو خاک میں ملانے کی منزل حاصل کی۔
طاقتور انصاف نہیں کرتا اُس کا اپنا قانون ہوتا ہے نائن الیون کے بعد امریکہ نے اِس خصلت کا خوب مظاہرہ کیا پاکستان جیسا کمزور معیشت کا حامل ملک جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو جائے یہ اُسے کسی صورت گوارہ نہ تھا اسی لیے جب 28 مئی 1998 کو بل کلنٹن کے منع کرنے کے باوجود جوہری تجربات کیے گئے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سزا دینے کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھایا گیا اِس دباؤ کی شدت کم کرنے کے لیے 31 جنوری 2004 کو جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے الزام میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور پھر چار فروری کو محسن ِ پاکستان نے اپنے وطن کی خاطر ناکردہ گناہوں کو تسلیم کرتے ہوئے عائد الزامات کے بارے ایک بیان میں جوہری پھیلاؤ کی تمام کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر لی بظاہر صدر پرویز مشرف نے اگلے روز ہی انہیں معافی دے دی مگر وہ عملی طور پر 2009 تک اپنے گھر میں ہی نظر بند رہے لیکن وضع دار محسنِ پاکستان نے ملک یا قوم کو الزام دینے کے بجائے چند ایک مخصوص چہروں کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا پاکستان کے پُرامن جوہری پروگرام کی کامیابی میں محسنِ پاکستان کلیدی کردار ہے لیکن مغرب نے امتیازی سلوک کرتے ہوئے انہیں جوہری پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا جس کا جواب ریاست کی طرف سے آنا چاہیے تھا مگر کسی نے ریاستی مفادات کا تحفظ کرنے یا مقدمہ لڑنے کی کوشش ہی نہ کی۔ جب کسی صحافی نے خان سے نوازشریف، بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف یا آصف زرداری میں سے کسی کو محب الوطن سمجھنے کا سوال کیا تو غلام اسحاق خان کا نام ہی لیا حالانکہ اِس سچ بارے کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ صدر غلام اسحاق خان کے دور میں سب سے زیادہ جوہری پروگرام پر کام ہوا بلکہ اُن کے بارے کہا جاتا ہے کہ مصروفیات کے باوجود وہ اِس حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں کی روزانہ تفصیل معلوم کرتے۔
قومیں محسنوں کو یاد رکھتی اور انہیں عزت و احترام دیتی ہیں لیکن ہمارے وطن میں اقتدار کے حریص ایسی روایت پر عمل نہیں کرتے پرویز مشرف کے دور میں ایک تقریب کے دوران موجودہ وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یہ کہہ کر پہلی نشستوں سے اُٹھا دیا کہ یہ نشستیں وزیروں کے لیے مختص ہیں جس پر بڑبولے وزیر کی بات پر رنجیدہ ہونے یا بحث کرنے کے بجائے خاموشی سے اُٹھ جانا بہتر جانا یہی وزیر اب وفات پر تجہیز و تکفین میں اِس لیے پیش پیش رہا تاکہ محسنِ پاکستان کی عوامی مقبولیت سے انتخاب کے دوران فائدہ اُٹھا سکیں یہ ابن الوقتی کے سوا کچھ نہیں بھارت جیسا دشمن تو اپنے سائنسدان کو صدر بنا کر کارکردگی کی تحسین کرتا ہے لیکن پاکستان میں اقتدار مافیا نے ایسی کوئی قابلِ قدر روایت قائم نہیں کی۔
قائدا عظم محمد علی جناح کے بعد عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر عبدالقدیرخان پاکستان کا روشن چہرہ ہیں جن کی خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا مگر محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا جنازہ پڑھنے سے حکومت اور اپوزیشن کے بڑے سیاستدان محتاط رہے اور محض تعزیتی بیانات جاری کرنے تک خودکو محدود رکھا یہ سوچ یا رویہ کسی طور پر قابلِ قدر یا قابلِ تحسین نہیں جس نے زندگی ہی ملک و قوم کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے وقف کر دی جو سراپا محبت و شائستگی تھے جنہیں جنگ و جدل کے بجائے شعر و ادب سے لگاؤ تھا اُن سے سیاستدانوں کی ایسی بے رُخی اور لاتعلقی قطعی غیر مناسب ہے نہ ہی ایسی حرکتوں سے محسن پاکستان کی زات کو حاصل عوامی عزت و احترام میں کمی آ سکتی ہے بلکہ حکومت اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنا قد ہی کم کیا ہے صاف ظاہر ہے سیاستدانوں نے غیر ملکی آقاؤں کی نظروں میں سرخرو رہنے کے لیے نمازِ جنازہ میں شرکت سے اجتناب کیا ہے تین صدارتی ایوارڈ لینے والے پہلے پاکستانی اور تیرہ طلائی تمغے حاصل کرنے والے سے اتنی بے رُخی ناقابلِ فہم ہے کیا موجودہ قیادت بھی کسی بیرونی دباؤ سے خوفزدہ ہے؟ محسن پاکستان کی آخری رسومات میں عدم شرکت سے ہاں میں ہی جواب دینا ہی مناسب ہو گا۔