پرانے ناواقف دیہاتوں کی بات ہے کہ جب وہاں کوئی بچہ بہت کمزور ہوتا جسے ”سوکا“ یعنی ”سوکھے کی بیماری“ کہا جاتا تو بعض اوقات اُس کا علاج روایتی طریقے کے مطابق کیا جاتا۔ علاج کے نسخے کے مطابق بچے کو ایک مکھی کھلا دی جاتی جس کے بعد بقول اُن لوگوں کے بچہ توانا ہونا شروع ہو جاتا۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق مکھی غلیظ اور مہلک بیماریوں کے جراثیم اٹھائے پھرنے والی خطرناک شے ہے اور یہ کسی طرح بھی انسانی جسم کی صحت یابی کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتی۔ پرانے ناواقف دیہاتوں کے باشندوں کے زمانے میں واپس جاکر انہیں مکھی کے خلاف اس جدید سائنس کے نتائج سے آگاہ کرنا تو ناممکن ہے، البتہ سوکھے کی بیماری دور کرنے کے لیے مریض کو غلیظ اور بیماریاں اٹھائے پھرنے والی خطرناک مکھی کھلانے کا عملی نمونہ ایک دوسرے شعبے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اس طریقہ علاج سے کمزور انسانوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب اسی سے ملتے جلتے علاج سے کمزور معیشت کو صحت یاب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف ایسا ادارہ ہے جو ممبر ملکوں کی کمزور معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے فنڈ ریلیز کرتا ہے۔ یہ مہربانی کرتے وقت آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کرتا ہے جس کا بوجھ اُن ملکوں کے غریب اور متوسط لوگوں پر پڑتا ہے۔ اُن کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے، بچتوں کی شرح گر جاتی ہے اور وہاں کے عام لوگ بمشکل روزمرہ ضروریات ہی پوری کرپاتے ہیں۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے والی حکومتیں آئی ایم ایف کی اِن سختیوں کو برداشت کرنا اپنی کمزور معیشت کو صحت یاب کرنے کے لیے ضروری گردانتی ہیں لیکن یہ حقیقت بہت حیران کن ہے کہ شاید ہی کوئی کمزور معیشت آئی ایم ایف کے سہارے مستقل طور پر مضبوط ہوئی ہو۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ اِس فنڈ کے ذریعے مذکورہ معیشت کی رکتی سانسیں کچھ بہتر ہو جائیں جیسے مصنوعی سانس کا آلہ لگا دینے سے ہوتا ہے لیکن آئی ایم ایف کے کندھوں پر چڑھ کر کوئی معیشت بھی ترقی یافتہ شاید
نہیں کہلائی۔ اس کی جیتی جاگتی مثال خود پاکستان کی معیشت ہے۔ ہم مکار انٹرنیشنل سودی اداروں پر صرف یہ کہہ کر پردہ نہیں ڈال سکتے کہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے والے یہاں کے سارے سابقہ حکمران تھے۔ کیا پاکستان کے سارے کے سارے سابقہ حکمران بے ایمان، چور، ڈاکو تھے؟ اور کیا سودی انٹرنیشنل ادارے نیک پروین ہیں؟ پاکستان کی موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اُس کے عام لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ بات معمہ نہیں ہے۔ کئی بیماریوں کو پھیلانے والی خطرناک مکھی کھلا کر سوکھے کی بیماری دور کرنے والے تشویش ناک طریقے کے مساوی آئی ایم ایف سے قرضے لے کر بیمار معیشت کو بہتر کرنے میں جو نئی شدید بیماریاں لگ جاتی ہیں اُن میں سے ایک مقامی ماہرین معیشت کو ملکی معیشت کے فیصلوں سے دور کردینا ہوتا ہے جوکہ آزاد ملک کی خودمختاری پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ دیکھا گیا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے دوران پاکستان کے چوٹی کے ماہرین معیشت کو فیصلہ سازی سے دور کردیا گیا۔ اُن کی جگہ آئی ایم ایف کے خیرخواہوں اور باقاعدہ ملازمین کو پاکستانی اداروں میں اچانک فوری ملازمت دی گئی۔ یعنی آئی ایم ایف کے ملازمین نے ہی پاکستانی معیشت کی طرف سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیے۔ عام سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی جس طرح یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ غلیظ اور بیماریاں پھیلانے والی خطرناک مکھی انسان کو کسی طرح بھی صحت یاب نہیں کرسکتی ویسے ہی یہ بات سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ اِن انٹرنیشنل اداروں سے فنڈ لے کر معیشت کو کیونکر پہلوان بنایا جاسکتا ہے؟ البتہ یہ بات واضح نظر آنے لگتی ہے کہ اِن قرضہ جات کے ذریعے اُن ملکوں میں امریکی اثر اور دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات اُن ملکوں سے زیادہ امریکہ کے لیے خوشخبری ہوسکتی ہے۔ کیا مستقبل میں ایسی کسی تجویز پر غور کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے چوٹی کے معیشت دان جنہیں انٹرنیشنل سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے اور دوسرے ممالک اُن کی معاشی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اُن کی ایک مستقل معاشی ایڈوائزری کونسل آئینی ترمیم کے ذریعے بنائی جائے جو کسی بھی حکومت کے آنے اور جانے سے نہ تو متاثر ہو اور نہ ہی کسی حکومت کے سیاسی عوامی فیصلوں کے دباؤ میں آئے۔ یہ مستقل معاشی ایڈوائزری کونسل پاکستان کے لیے معاشی پالیسیاں بنائے اور اُن پر عمل درآمد کا سختی سے مستقل جائزہ لیتی رہے۔ ہمارے ہاں سکیورٹی ادارے ملکی دفاع کے حوالے سے کسی قسم کا سیاسی دباؤ قبول نہیں کرتے۔ اگر مجوزہ مستقل معاشی ایڈوائزری کونسل کی تیار کردہ پالیسیوں کو بھی ہمارے سکیورٹی ادارے مذکورہ آئینی ترمیم کے ذریعے دفاعی سطح کا تحفظ فراہم کریں تو ممکن ہے کہ مستقبل میں کبھی انٹرنیشنل سودی اداروں سے پاکستانی معیشت کی جان چھوٹ جائے اور ہم بھی اپنی کمزور معیشت کا علاج غلیظ اور بیماریاں پھیلانے والی خطرناک مکھی کھا کر کرنے کے بجائے جدید معاشی اصولوں کے ذریعے کرسکیں۔