12اکتوبر 1999کومحمد نوازشریف کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرکے جنرل پرویزمشرف نے ملک میں مارشل لاء نافذکردیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں محمد نوازشریف کے پاس چند جرنیل گئے اور اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے کاغذپر دستخط کرنے کو کہا اور انہیں کچھ رعایتیں دینے کی پیشکش کی لیکن محمد نوازشریف نے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے صاف انکار کردیا اور جب ان پر دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے جرنیلوں کو واضح الفاظ میں کہا کہ on my dead body۔کسی صورت اسمبلیوں کو نہیں توڑوں گا۔اس انکار کے بعد محمد نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کو نظر بند کردیاگیا اور ان پرپرویزمشرف کے ہوائی جہاز کے ہائی جیکنگ کا مقدمہ درج کردیا۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے ذریعے انہیں عمر قید کی سزاسنائی گئی۔12اکتوبر 1999کو اس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویزمشرف کو چیف آف دی آرمی سٹاف کے منصب سے برطرف کرکے انکی جگہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف تعینات کردیا تھا تاہم جنرل پرویزمشرف نے اپنے ہمنوا جرنیلوں کے ذریعے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیااورآئین کو معطل کرکے پی سی او کا نفاذ کیا۔اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پرویزمشرف کے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف سید ظفرعلی شاہ کی آئینی درخواست پرفیصلہ سناتے ہوئے مشرف آمریت کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قراردیا اور پرویز مشرف کوپارلیمنٹ کے بغیرہی آئین میں ترامیم کا اختیاربھی دیدیاجبکہ پرویزمشرف کے وکلاء کی جانب سے ایسی کوئی استدعا بھی نہیں کی گئی تھی۔پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹیو بن گئے۔پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایااور قوم کے سامنے اپنا سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا لیکن آٹھ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود سات نکاتی ایجنڈے پر عمل نہیں کیا اوراحتساب کے نام پر اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایااور نیب کے ادارے کو سیاسی مقاصد کے حصول اور اپنے مخالفین کو دبانے وہراساں کرنے کے لئے خوب استعمال کیا۔2002کے جنرل الیکشن میں پرویزمشرف کی تخلیق کردہ مسلم لیگ(ق)کو باوجود کوششوں کے قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں ملی۔پیپلزپارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ گروپ بنایاگیا لیکن اسکے باوجود بھی میر ظفراللہ جمالی کوصرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم منتخب کرایاگیا۔ڈکٹیٹر مشرف کا آٹھ سالہ دور بدترین دورثابت ہوا۔امریکہ کے اتحادی بن کر ملک کے مفادات کا سودا کیاگیا۔ سیکڑوں پاکستانیوں کو ڈالر کے عوض امریکہ کے حوالے کیاگیا۔ ملک میں ڈرون حملوں کی اجازت دی۔جیکب آباد اور شمسی کے ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کئے اور امریکی جنگ کو اپنی جنگ بناکر قوم پر مسلط کی گئی جس کی وجہ سے ملک میں بدامنی پھیل گئی۔ خودکش دھماکے شروع ہو گئے۔ قبائلی علاقوں میں امریکی دباؤ پر ملٹری آپریشن شروع کئے گئے جس میں ہزاروں قبائل بے گھر ہوگئے۔ امریکی جنگ کی وجہ سے قومی خزانے کو 80ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔
جنرل مشرف کا 12اکتوبر کا ٹیک اوور پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔جب وزیراعظم محمد نوازشریف نے بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بس کے ذریعے لاہور آکر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔جنرل مشرف نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے کارگل کی جنگ شروع کی اور وزیراعظم محمد نوازشریف کو بے خبر رکھاگیا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب (یہ خاموشی کہاں تک)میں لکھا ہے کہ کارگل مہم جوئی کی سوائے جنرل مشرف، جنرل عزیزخان، جنرل محمود اور میجرجنرل جاوید حسن کے علاوہ کسی اور سینئرافسر کو کانوں کان خبر نہ تھی۔پرویزمشرف نے سری لنکا جانے سے پہلے آخری ملاقات میں یہ فیصلہ کیا تھااگر انکی غیر موجودگی میں نوازشریف نے انہیں فوج کی کرسی سے ہٹانے
کی کارروائی کی تو فورا ًحکومت کا تختہ الٹ دیاجائے۔ کئی دنوں سے انکے گھرپر اس سلسلے میں ملاقاتیں جاری تھیں۔ ان ملاقاتوں میں جنرل محمود،جنرل عزیزخان، جنرل احسان الحق اور بریگیڈئر ارشد قریشی اور چیف کے پرنسپل سٹاف آفیسر موجود ہوتے تھے۔مزید لکھتے ہیں کہ پرویزمشرف امریکہ کی فرمائشیں پوری کرنے پر آمادہ ہوگئے کشمیر کے جہاد کی امدادامریکی دباؤ پرہی ختم کی گئی تھی۔سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے اپنی کتابMy American Journeyمیں لکھا ہے 9/11کے واقعے کے بعد پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر تمام امریکی مطالبات تسلیم کئے جو ہماری بہت بڑی کامیابی تھی یعنی امریکی وزیرخارجہ کے ایک فون پر ملکی سلامتی وخودمختاری کا سودہ کیا اور مشرف دباؤ برداشت نہ کرسکے۔ سابق امریکی صدربش نے اپنی کتابDecission Pointمیں لکھا ہے کہ مشرف نے پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کی اجازت دی۔تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو نظربند کردیا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب In The Line of Fireمیں خود اعتراف کیا ہے کہ ڈالروں کے عوض پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔
ملکی تاریخ گواہ ہے کہ فوجی آمروں نے ہمیشہ امریکہ سمیت ہر بیرونی دباؤ کے سامنے سرنگوں کیا۔ ایوب خان نے روس کی جاسوسی کرنے کیلئے بڈھ بیر ائر بیس پشاور کو امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے روس کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔سیاسی لیڈربیرونی دباؤ کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور قوم کو اعتماد میں بھی لیتے ہیں۔ محمد نوازشریف کے بارے میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی کتابMy Life میں لکھا کہ مئی 1998کے وسط میں بھارت کی جانب سے پانچ ایٹمی دھماکے کئے گئے تو وزیر اعظم نوازشریف پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جواب میں ایٹمی دھماکوں سے گریز کریں جواب میں دو ہفتوں کے بعد پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کردیئے۔
نوازشریف محب وطن لیڈر ہیں انہوں نے ملکی خودمختاری وسلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا قوم کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرکے ملک کو ایٹمی قوت بنادیا۔2013کے انتخابات کے بعد محمد نوازشریف وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انکے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کیاگیا پہلے لندن پلان کے مطابق دھرنوں کا پروگرام بنایاگیا اور لندن میں دھرنوں کے لئے عمران خان، طاہر القادری اور چودھری برادرا ن کو اکھٹاکیاگیا اور محمد نوازشریف کو وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کیلئے ملکی تاریخ کا طویل ترین 126دن دھرنا دیا گیا۔ ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ دھرنے کے ذریعے محمد نوازشریف کو وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی کرانے میں ناکامی کے بعد خلائی مخلوق نے اقامہ کے ذریعے محمد نوازشریف کو وزیر اعظم کو انکے عہدے سے ہٹایاگیا۔بیٹی اور داماد سمیت جیل اور نا اہلی کی سزائیں سنائی گئیں۔ محمد نوازشریف کی تین دفعہ حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے کی بڑی وجہ انکی جانب سے سویلین بالادستی کا قیام اور جمہوریت کا استحکام تھا۔بار بار فوجی مداخلت کی وجہ سے ہمارے ملک نے ترقی نہیں کی۔بنگلہ دیش بھی معاشی لحاظ سے پاکستان سے آگے نکل گیا ہے۔