دوستو، سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں فاسٹ فوڈز اور ٹریفک حادثات اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے درمیان حیران کن تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ ایسٹونیا کی ٹارٹو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں ہزاروں لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، جس میں معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ برگر، پیزا اور شوگری مشروبات کے عادی ہوتے ہیں ان میں خطرات مول لینے والے جینز پائے جاتے ہیں اور ایسے لوگ نہ صرف زیادہ ٹریفک حادثات کا سبب بنتے ہیں بلکہ ٹریفک قوانین کی بھی زیادہ خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ”ایسے لوگ گاڑی چلاتے ہوئے دوسروں کے لیے مصائب کھڑے کرتے ہیں اور بہت ناگوار گزرنے والے روئیے کے حامل ہوتے ہیں، ان کا یہ رویہ صرف گاڑی چلاتے ہوئے ہی نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی یہ لوگ لاپروا اور خطرات مول لینے والے ہوتے ہیں۔ جو لوگ فاسٹ فوڈز پسند کرتے ہیں ان میں یہ رجحان طبعی طور پر پایا جاتا ہے۔ اس روئیے کے حامل لوگ فاسٹ فوڈز کو زیادہ پسند کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ جاننے کے لیے ہمیں مزید تحقیق کی ضرورت ہو گی۔
ڈائٹ مشروبات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ موٹاپے کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں لیکن اب ایک تحقیق میں ماہرین نے اس کے برعکس ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ ڈائٹ مشروبات پینے والے موٹاپے کا شکار لوگ پریشان رہ جائیں گے۔ ایک برطانوی اخبارکے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائٹ کوک، ڈائٹ پیپسی اور دیگر ڈائٹ مشروبات حقیقت میں وزن کم کرنے میں مدد نہیں کرتے بلکہ یہ مشروبات پینے سے الٹا وزن بڑھتا ہے۔چین کی ژینگ ژا یونیورسٹی کے ماہرین نے اس تحقیق میں 10لاکھ لوگوں کا 20سال کا طبی ڈیٹا حاصل کرکے اس کا تجزیہ کیا ہے اور ان کی ڈائٹ مشروبات پینے کی عادت سے اس کا موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ پروفیسر کیتھلین کا کہنا ہے کہ مصنوعی مٹھاس کے حامل مشروبات پینے سے غالباً دماغ دھوکہ کھاتے ہیں اور وہ جسم کو مسلسل بھوک کا احساس دلاتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ زیادہ کھانا کھاتے اور موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپا زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ الٹی سیدھی چیزیں کھانے سے ہوتا ہے، چاہے وہ کم مقدار ہی میں کیوں نہ کھائی جائیں۔”دی امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن“ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹر ڈیوڈ لُڈوِگ کی قیادت میں کی گئی ہے جس کے نتائج اس عام خیال کے برخلاف ہیں جو اس وقت ساری دنیا میں مقبول ہے۔آپ جتنا زیادہ کھاتے ہیں، اتنے ہی موٹے ہوجاتے ہیں“ اور ”کم کھائیے، زیادہ حرکت کیجیے“ کے روایتی تصور کو میڈیکل سائنس کی زبان میں ”انرجی بیلنس ماڈل“ (ای بی ایم) کہا جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں موٹاپے سے متعلق نئے تصور کو ”کاربوہائیڈریٹ انسولین ماڈل“ (سی آئی ایم) کا نام دیا گیا ہے، جس کی بنیادیں کم از کم 120 سال پرانی ہیں۔ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے کم کھانے اور زیادہ چلنے پر بہت زور دیا جارہا ہے لیکن پھر بھی موٹے لوگوں کی تعداد اور موٹاپے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،کیونکہ گھر میں پکے ہوئے کھانوں کی جگہ صنعتی پیمانے پر تیار کردہ غذاؤں (پروسیسڈ فوڈ) کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔صنعتی پیمانے پر اشیائے خور و نوش کی تیاری میں قدرتی غذاؤں (پھلوں، سبزیوں اور گوشت وغیرہ) میں سے ان کے قدرتی غذائی اجزاء، بالخصوص ریشے (فائبرز) نکال باہر کیے جاتے ہیں۔دوسری جانب غذائی مصنوعات کی تیاری میں بہت سے ایسے اجزاء بھی شامل کردیئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے جلدی پیٹ بھرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ڈاکٹر ڈیوڈ کے مطابق، پروسیسڈ فوڈ میں روغنیات (fats) اور کاربوہائیڈریٹس سمیت، بہت سی ایسی چیزیں بھی شامل کی جاتی ہیں جنہیں ہمارا جسم پوری طرح سے ہضم نہیں کر پاتا اور چکنائی کی صورت میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔ان تمام عوامل کا مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ الا بلا (جنک فوڈ) کم مقدار میں کھانے پر بھی موٹاپے میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے۔اگرچہ اس نئے تصور کے حق میں ڈاکٹر ڈیوڈ اور ان کے ساتھیوں نے سیکڑوں مطالعات و مشاہدات استعمال کیے ہیں لیکن اس بارے میں کسی باضابطہ، وسیع البنیاد اور طویل مدتی تحقیق کے بغیر یہ تصور قابلِ قبول نہیں ہوگا۔واضح رہے کہ طبّی ماہرین کا ایک نمایاں طبقہ ”انرجی بیلنس ماڈل“ کو حرفِ آخر نہیں سمجھتا اور اس ماڈل میں وقتاً فوقتاً خامیوں کی نشاندہی بھی کرتا رہتا ہے۔۔اگر آئندہ تحقیقات سے ”انسولین کاربوہائیڈریٹ ماڈل“ درست ثابت ہوگیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ صحت، متوازن غذا اور موٹاپے سے متعلق رہنما طبّی نکات (میڈیکل گائیڈلائنز) میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی آجائے گی۔عام خیال ہے کہ بسیار خوری موٹاپے کا سبب بنتی ہے لیکن سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس عام تاثر کے برعکس ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ سن کرآپ کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں ڈاکٹر ڈیوڈ لوڈویگ اور ان کی ٹیم بتاتی ہے کہ پراسیسڈ فوڈ کے ساتھ ساتھ آدمی کے کھانے کے پیٹرن اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ وہ موٹاپے کا شکار ہو گا یا نہیں۔ ایسے کھانے جن میں گلائسمیک (Glycemic)اور قابل ہضم کاربوہائیڈریٹس بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، سب سے زیادہ موٹاپے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے کھانے ہارمونز میں ایسی تبدیلیاں لاتی ہیں جس سے ہمارا میٹابولزم تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس سے ہمارے جسم میں چربی زیادہ جمع ہونے لگتی ہے اور وزن بڑھنے لگتا ہے۔ماہرین نے بتایا ہے کہ جب ہم بہت زیادہ پراسیسڈ کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں تو ہمارا جسم انسولین کی مقدار بہت زیادہ پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے جبکہ گلوکیگن کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ اس سے چربی کے خلیے زیادہ کیلوریز جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ ہمارے پٹھوں کو طاقت دینے اور دیگر میٹابولک پراسیسز کے لیے بہت کم کیلوریز استعمال ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا دماغ سمجھتا ہے کہ جسم کو مناسب توانائی نہیں مل رہی لہٰذا ہمیں بھوک زیادہ محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس سائیکل میں ہمارے جسم میں چربی زیادہ جمع ہوتی چلی جاتی ہے اور ہمارا جسم توانائی کے لیے مزید خوراک مانگتا چلا جاتا ہے اور حتمی نتیجہ موٹاپے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زیادہ اچھا ہونا بھی بہت خراب ہوتا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔