صبر…… کسی مجبور کی بے کسی اوربے بسی کا نام نہیں‘ بلکہ ایک صاحبِ اختیار کے اپنے اختیار پر کا نام ہے۔ صبر ایک بہت بڑی قوت ہے…… اور یہ قوت‘ قوتِ ضبط ہے۔جب تک کسی ذی قوت کی معیت حاصل نہ ہو‘ صبر کی قوت حاصل نہیں ہوتی۔ صبر…… دعوتِ لذات و شہوات مسترد کرنے کا بھی نام ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو صبر ایک حالت ِ قیام ہے۔ جذبات کے ہاتھوں مشتعل ہونے والا صبر کیا‘ صبر کے ہجے بھی نہیں کر سکتا۔ کثرت میں بکھر جانے والا‘صبر کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ دولت، شہرت اور لذت کی برمودا ٹرائینگل بڑے بڑے دیوہیکل سواروں کو اُن کی سواریوں سمیت نگل لیتی ہے۔ نقطہئ وحدت میں اپنا خیال مرکوز رکھنے والا ہی کثرت کو ترک کر سکتا ہے۔ وحدت کوئی ماورائی خیال نہیں بلکہ محلِ ذاتِ واحد ہے۔ جب تک ذات کا تعین نہ ہو‘ خیال ایک نقطے پر ٹھہر نہیں سکتا!!
صبر اور برداشت میں فرق ہے۔ برداشت‘چار و ناچار کیا جاتا ہے۔ صبر اپنے اختیار سے اختیار کیا جاتا ہے۔ برداشت…… معاشرت یا پھرمعیشت کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ صبر…… تعلق مع اللہ بچانے کے لیے جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تعلق مع اللہ ہی صبر کی استعداد پیدا کرتا ہے۔ بے انتہا صبر لامنتہا ذات سے تعلق کے باعث ہی ممکن ہوتا ہے!! صبر کا راستہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ ظاہر پرست اور باطن سے آشنا میں یہی فرق ہے، ظاہر پرست کا صبر جواب دے جاتا ہے جبکہ باطن شناس لامتناہی امکانات کا داعی ہوتا ہے……اس لیے وہ کسی کے لیے اپنا دروازہ بند نہیں کرتا، وہ جانتا ہے کہ ہر لمحہ اپنے اندر امکانات کا ایک جہان ِ تازہ رکھتا ہے…… کوئی کسی وقت بھی واپس آ سکتا ہے، کسی وقت بھی مالکِ کل کی رحمت ِ بے پایاں کی موج اُٹھ سکتی ہے اور ساحلِ بشریت پر پڑا معصیت کا کاٹھ کباڑ اپنے ساتھ بہا کر لے جا سکتی ہے۔ معصیت کسی بھی وقت مغفرت میں بدل سکتی ہے، سئیات کسی سعد ساعت میں حسنات میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ گناہوں میں ڈوبنے والوں کو شفاعت کی کملی میں پناہ مل سکتی ہے۔
صبرسب اخلاقی اقدار کی روح ہے۔ اخلاقیات کی عمارت صبر کی بنیاد پر اٹھائی گئی ہے۔ صبر سے محروم‘اخلاق سے محروم ہے۔ صبر ہمیں ردّ عمل جیسے ردّی عمل میں گرنے سے بچاتا ہے۔ اگرہر عمل کاردّعمل دینے کی ریت پڑ جائے تو انسانی معاشرے اخلاق اور آداب کے جوہر سے محروم ہو جائیں۔ صبر اپنی محرومی پر خاموش رہنے کا بھی نام ہے اور اپنے حاصل کے اعلان کو مدھم کرنا بھی صبر ہی
کے زمرے میں آتا ہے۔ ناکامی پر حوصلہ برقرار رکھنا بھی صبر ہے اور کامیابی کی صورت میں اپنے زورِ بازو کے قصیدوں سے اعراض کرنا بھی صبر ہی کہلائے گا۔ الغرض‘ صبر ایک ایسا جوہر ہے‘ جو آدمی میں جوہرِ انسانیت کو بیدارکردیتا ہے۔ ایک صابر شخص ہی صبار کو پہچانتا ہے۔ صبر کرنے والا باطن شناس ہوتا ہے،وہ روحانی دنیا کا مسافر ہوتا ہے…… اور مسافر ہی مسافر کا مقام جانتا ہے۔ معاشرے میں صبر کرنے والے ایک شاک ابزاربر کا کام کرتے ہیں، اگر اِس جہان سے صابر لوگ رخصت ہو جائیں تو معاشرے میں مسکراہٹیں اور مسرتیں مفقودہو جائیں!
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے‘ جہاں مومن صبر کرتا ہے‘ وہاں مقرب شکر کرتا ہے، یعنی مقرب‘ مقامِ صبر کو مقامِ شکر بنا دیتے ہیں۔یہ ایک انتہائی لطیف نکتہ ہے۔ مصیبت میں صبر کا حکم دیا گیا ہے اور نعمتوں میں شکر بجا لانے کی تاکید ہے۔ اب مقامِ صبر‘ مقام شکر کیسے بنے؟ درحقیت مقربین حق عارفین ِ حق ہوتے ہیں۔ عارف مشیت آشنا ہوتا ہے…… وہ اس کائنات کے گریٹ ماسٹر پلان سے آگاہ ہوتا ہے، وہ جانتا ہے کہ ہر گام خیر ہی خیر ہے…… شر راستے کا پتھر ہے، یہ راستے میں اس لیے آتا ہے کہ اسے نیچے دبا کر اپنا قد بلند کر لیا جائے۔ وہ جانتے ہیں‘ ایک چھوٹی تکلیف دراصل بڑی تکلیف سے بچانے کے لیے آتی ہے۔ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مصیبت دراصل ملامت کا سودا ہے…… اور یہ سچوں کے لیے ایک سُچا سودا ہے۔ دنیا کی نظر میں مقہور اپنے محبوب کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں‘ یہاں کا حاصل وہاں کی محرومی اور یہاں کی محرومی وہاں کا حاصل ہو سکتا ہے۔ یعنی جسم کی دنیا میں کسی محرومی کا مطلب روح کی دنیا میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ تقسیم کو جمع مانتے ہیں …… اور حاصلِ جمع کو لاحاصل!! وہ علم اور حلم کی دنیا میں رہتے ہیں‘ جہاں تقسیم کرنے سے دولت بڑھتی ہے۔
اگر نعمتوں کی ایک فہرست بنائی جائے اور اِسے کچھ دیر کے لیے حرزِ جان بنایا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم کتنی ہی نعمتوں پر شکریہ ادا کئے بغیر ہی گزر گئے۔ ہمیں تکلیف یاد رہتی ہے اور نعمت بھول جاتی ہے۔ کتنی ہی نعمتیں ہیں‘ جو ہمیں ہماری استعداد اور ہمارے استحقاق سے بڑھ کر ملی ہیں لیکن ہم ہیں کہ دوسروں کو حاصل نعمتوں کو دیکھ کر اپنے دسترخوان کا ذایقہ بھول جاتے ہیں۔”ھل من مزید“ کی تان ہمارے جوہرِ خودی کی آن کو متاثر کرتی ہے۔ خالق کائنات نے اپنی کائنات میں ہمیں بغیر کسی استحقاق کے زندگی کی صورت میں سیاحت کا ایک دعوت نامہ دیا…… سمع، بصر اور عقل ایسے گیجٹ مفت میں عطا کیے، اور اس خاکی وجود کو ہماری سواری بنایا…… یہ سب عطائیں ہمیں بغیر کسی استحقاق کے میسر آئی ہیں۔اس جہان میں ہم اپنے ہونے کا شکر ہی ادا کرتے رہیں تو کسی چیز کے نہ ہونے کا غم پاس نہیں پھٹکے گا!! نعمتوں کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ ہم میں سے اکثر مقامِ شکر کو مقامِ شکوہ بنائے بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے جن رشتہ داروں کا گلہ کرتے ہیں‘پہلے اُن کے ہونے کا شکر تو ادا کر لیں۔ رب تعالیٰ نے ہمیں ماں باپ ایسی نعمت سے نوازا، ہم نے کہاں تک قدر کی؟ خالق نے ہمیں اولاد ایسی نعمت سے نوازا، ہم نے اُن کی کس حد تک قدر دانی کی؟ اُس نے ہمیں بھائی بہنوں کے میلے میں پیدا کیا،اس میلے میں ہم نے اپنے مفادات کا ٹھیلہ لگا لیا، نتیجہ یہ کہ بھائی بہنوں کی قدر نہیں کر سکے۔ ہمیں نوکری ملتی ہے تو ہم ترقی کے نہ ہونے کا گلہ کرتے ہیں، کاروبار میسر آتا ہے تو ناروا ٹیکس کا رونا روتے ہیں۔ اُس نے ہمیں ایک آزد ملک میں پیدا کیا لیکن ہم نے اپنے ملک کی وادیوں سے وفا نہیں کر سکے۔ ملک سے وفا نہ کرنا، اس کے دکھ سکھ میں شامل ہونے سے گریز کرنا دراصل آزادی ایسی نعمت کی ناشکری کا اعلان ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں دیس نکالا دے دیا جاتا ہے …… اور یہ فیصلہ ہم بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہمیں قبول ہوتاہے اور اپنی آزاد فضاؤں کا موسمی حبس ہمیں شکوہ کردیتا ہے۔ ہم اپنے اپنے مزاج اور مفاد کے بندی خانوں میں قید ہیں۔ شکر کرنا ایک مردِ آزاد کی صفت ہے۔ ایک قیدی کو کیا خبر‘آسمان کی وسعتوں، زمین کی وادیوں اور انسانوں کے جھرمٹ میں شکر کے گیت کیسے گنگنائے جاتے ہیں۔ موجود نعمتوں پر شکر سے روگردانی‘ مزید نعمتوں کی راہ روک لیا کرتی ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید میں کلمہئ شکر کے مقابل میں کفر کا لفظ لایا گیا ہے۔ ایمان والوں کے لئے یہی کلمہئ فرقان ہے۔کفرانِ نعمت کا لفظ یہاں بھی مستعمل ہے۔ کلمہئ شکر ادا کرتے رہیے…… کہیں ایسا نہ ہو ہم پر کلمہئ کفرکا اطلاق ہو جائے!! کیا یہ مقامِ شکر نہیں کہ رب العالمین نے ہمیں اپنے محبوب رسول رحمت‘ رحمت اللعالینﷺ کی اُمت میں پیدا کیا، پیدا ہوتے ہی کان میں ہمیں اُنؐ کا کلمہ عطا کر دیا ……ہمارے استحقاق سے بڑھ کر حاصل ہونے والی‘دونوں جہاں میں کام آنے والی یہ نعمت غیر مترقبہ ہم پر ہمہ دم کلمہئ شکر واجب کرتی ہے۔ کلمے کاشکر‘یہ ہے کہ کلمے والےؐ سے محبت کی جائے ……اُ ن ؐ کی آل سے محبت کی جائے……اُنؐ کی اُمت سے محبت کی جائے، اُنؐ کی اُمت کی خدمت کی جائے……اور اُنؐ کی غیر مشروط اطاعت کی جائے!!