مولانا عادل کا قتل: اہلخانہ کے انکار کے بعد مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج

مولانا عادل کا قتل: اہلخانہ کے انکار کے بعد مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج

کراچی: شہر قائد میں گزشتہ دنوں ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعے میں شہید ہونیوالے مولانا عادل خان کی فیملی نے واقعے کا مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے انکار کے بعد اب مقدمے کو سرکار کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔

مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور کے قتل کا مقدمہ ایس ایچ او شاہ فیصل تھانے کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں قتل اور دہشتگردی ی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ تین ملزمان نے پستول سے فائرنگ کی اور موٹرسائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ فائرنگ سے دو افراد زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال بھیجا گیا تاہم دونوں افراد جاں بحق ہو گئے۔ جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم گولیوں کے 5 خول ملے تھے۔ پولیس کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد تفتیش سی ٹی ڈی منتقل کردی گئی۔

خیال رہے کہ مولانا عادل کو 10 اکتوبر کو کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی نمبر دو میں فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا تھا۔ سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے میں قتل اور دہشتگردی سمیت دیگر دفعات شامل کی جائیں گی۔ گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے وزیر ریلوے شیخ رشید کو مولانا عادل قتل کیس میں شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جس کی ہر پہلو سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید نے کہا تھا کہ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں میں کورونا پھیلنے اور دہشتگردی کا خدشہ ہے۔ اس بیان کے بعد مولانا عادل پر حملہ ہوا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس میں وزیر ریلوے شیخ رشید کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ مونالا عادل کے صاحبزادے نے اپنے والد کی سیکیورٹی کے لیے کہا تھا تاہم مرحوم کی جانب سے خود ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی۔

ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا عادل کے قتل میں دو پڑوسی ممالک کے ملوث ہونے کے کچھ شواہد ملے ہیں۔ جائے وقوع سے پستول کے جو خول ملے ان کی فارنزک رپورٹ آگئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ اسلحہ پہلے کسی واردات میں استعمال نہیں ہوا۔ واقعے کی جیوفینسنگ بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ تفتیش میں اشارے ملے ہیں کہ مفتی تقی عثمانی اور مولانا عادل پر حملے میں ایک ہی گروپ ملوث ہے تاہم ابھی حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

آئی جی سندھ نے مولانا عادل پر فائرنگ کے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مولانا عادل کا ایک ساتھی خریداری کیلئے گاڑی سے اترا اور اسی دوران موٹر سائیکل سوار ملزموں نے فائرنگ کر دی۔ دہشتگرد مولانا عادل پر دائیں جانب سے حملہ آور ہوئے۔ دہشت گردوں کے آتشی اسلحہ سے نکلنے والی پانچ گولیاں مولانا عادل کو لگیں۔ پانچ میں سے چار گولیاں مولانا عادل کے سر اور چہرے پر لگیں اور ایک بازو میں لگی۔ مولانا عادل کے سر اور چہرے پر لگنے والی گولیاں موت کا سبب بنیں۔ مولانا کے ڈرائیور مقصود کو صرف ایک گولی لگی۔ حملہ آوروں نے ڈرائیور کے سر پر وار کیا۔ مقصود احمد کے سر میں لگنے والی واحد گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔

مولانا عادل کی گاڑی پر فائرنگ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی ہے جس میں حملہ آور کو گولیاں مارنے کے بعد پیدل سڑک پار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک نے موٹر سائیکل سے اتر کر فائرنگ کی جسکے بعد تینوں حملہ آور موٹر سائیکل پر فرار ہوئے۔ پولیس کے مطابق مولاناعادل پرفائرنگ دارالعلوم کراچی سے واپسی پر ہوئی۔ مولانا عادل کا ساتھی عمیر اس واقعہ میں محفوظ رہا اور وہ ہسپتال میں ہے۔ کراچی پولیس چیف کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد تین تھی جوایک ہی موٹر سائیکل پہ سوار تھے۔