گلگت بلتستان میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ الیکشن کا انعقاد 15 نومبر بروز اتوار کو شیڈول ہے۔ حکومت نے عوام کی سہولت کے پیش نظر پورے علاقے میں ہفتہ 14 نومبر سے پیر 16 نومبر تک عام تعطیل کا اعلان کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ باقی چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر سے بالکل ہی مختلف ہے۔ گلگت بلتستان وہ واحد صوبہ ہے جسے علاقے کی عوام نے بزور بازو ڈوگرہ راج سے آزاد کروایا اور عوام نے پاکستانیت کا ثبوت دیتے ہوئے بخوشی علاقے کو پاکستان کے ساتھ الحاق کروایا تھا۔
گلگت بلتستان یکم نومبر 1947ء کو آزاد ہوا تھا۔ یہ علاقہ 1948ء سے لے کر 1950ء تک پولیٹیکل ریزیڈنٹ صوبہ سرحد کے ماتحت رہا۔ 1950ء میں اسے وزارت امور کشمیر کے پولیٹیکل ریزیڈنٹ کے انتظام میں دیا گیا۔ 1956ء سے لے کر 1959ء تک ولیج ایڈ یعنی دیہات سدھار کے تحت ترقیاتی منصوبوں پر کا کیا گیا۔ 1960ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں پہلی بار بیسک ڈیموکریسی کے تحت یونین کونسل کے الیکشن ہوئے۔ صدر یحییٰ خان نے 1970ء میں ویلیج ایڈ کو ترقی دے کر ایڈوائزری کونسل قائم کی۔
1971ء میں ایڈوائزری کونسل کی تعدا بڑھا کر 14 کردی گئی اور ان کا چناؤ مختصر عوامی رائے دہی سے ہوا۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے راجگی سسٹم ختم کیا۔ ناردرن ایریاز الیکشن آڈر 1975ء کے تحت انتخاب ہوئے اور گلگت بلتستان کو 16 انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا۔ 1977ء کو جنرل ضیاء کا مارشل لا نافذ ہوا اور جی بی کو مارش لا زون ای قرار پایا۔
1979ء میں گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا اور پہلی بار ناردرن ایریاز کونسل کے ساتھ بلدیاتی ادارے بھی قائم کیے گئے۔ 1983ء، 1987ء اور 1991ء کے ناردرن ایریاز کونسل کے 16 ارکان کے الیکشن حسب سابق طریقے سے ہوئے۔ 1991ء میں ناردرن ایریاز کونسل کے لئے ڈپٹی چیف کا عہدہ متعارف کرایا گیا اور پہلی بار پانچ مشیروں کی تقرری ہوئی۔
2009ء میں پیپلز پارٹی حکومت نے گلگت بلتستان کو صدارتی آرڈیننس کے تحت کچھ عبوری صوبے کے حقوق دئیے اور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے، 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ 2015ء میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بنی۔
گلگت بلتستان میں خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 9 سو اٹھانوے ہے لیکن میدان میں صرف چار خواتین انتخاب لڑ رہی ہیں۔ سعدیہ دانش کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے جلسوں کی روایت نہیں، اس لئے گھر گھر جا کر مہم کرنا پڑ رہی ہے۔ شہناز بھٹو تعلق غذر سے ہے۔ پیپلز پارٹی میں ٹکٹ کے لیے امیدوار تھی لیکن ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی خواتین کو علاقے میں متحرک کر رکھا ہے۔ ضلع ہنزہ سے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مہناز ولی الیکشن لڑ رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف سے آمنہ انصاری انتخابات میں اب تک ضلع گانچھے سے الیکشن میں حصہ لیتی آ رہی ہیں، اس دفعہ ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سے ہوگا۔
گلگت بلتستان انتخابات میں کل 24 نشستوں میں 23 نشستوں پر پندرہ نومبر کو انتخابات ہونگے۔ 24 نشستوں کے لیے کل 327امیدوار مد مقابل ہوں گے۔ گلگت بلتستان کئے انتخابات میں اس دفعہ سب سے زیادہ امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی نے کھڑے کیے ہیں۔ 24 حلقوں کے لیے کل 23 امیدوار جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اکیس، پاکستان تحریک انصاف کے اکیس، پاکستان مسلم لیگ ق کے پندرہ، جمعیت علمائے اسلام کے بارہ، اسلامی تحریک پاکستان کے آٹھ، متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کے چار امیدوار میدان میں ہیں۔
آل پاکستان مسلم لیگ ، گلگت بلتستان قومی مومنٹ ، جماعت اسلامی پاکستان ، مجلس وحدت المسلمین ، پاکستان سرزمین پارٹی اور پاکستان راہ حق پارٹی سے تین امیداوار کھڑے کئے گئے ہیں۔ برابری پارٹی پاکستان اور پاکستان عوامی لیگ کے دو جبکہ عوامی ورکرز پارٹی کا ایک امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ دو سو آزاد امیدوار بھی انتخابی میدان میں قسمت آزمائیں گے۔