صدر نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کیلئے وزیر اعظم کی سمری مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر پنجاب کو صدر کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جاسکتا، آئین کے آرٹیکل 101 کی شق 3 کے مطابق گورنر، صدر کی رضامندی تک رہے گا۔ وفاقی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے گورنر کو برطرف کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے، جبکہ حکومت کی طرف سے قائم مقام گورنر مقرر کیے گئے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے مذکورہ عہدہ سنبھالنے اور ایڈووکیٹ جنرل کی برطرفی کی سمری پر دستخط سے انکار کردیا ہے۔پنجاب کیلئے مقررکردہ گورنر کو موجودہ حکومت کی طرف سے انکے عہدے سے ہٹانے کے معاملے نے ریاست کے دو اہم عہدوں صدر مملکت اور وزیراعظم کے اختیارات کے حوالے سے آئینی بحران پیدا کر دیا ہے اورلگتا ہے یہ معاملہ بھی تشریح و رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ جائے گا۔ دوسری طرف صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ڈپلومیٹک کیبل معاملے پر سابق وزیراعظم کا خط موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ارسال کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات کیلئے بااختیارکمیشن قائم کیا جائے۔ عمران خان کی جانب سے بھی گورنرپنجاب کو عہدے سے ہٹانے کی مذمت کی گئی ہے اور ساتھ ہی عدالت عظمیٰ سے پنجاب میں آئین و قانون کی کھلی توہین کے فوری نوٹس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس صورتحال میں مسلم لیگ ن کے قائدسابق وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف سمیت پارٹی کی سینئر قیادت کو لندن بلایا ہے۔ مارچ 2022 ء میں سابقہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے بعد سے جس طرح واقعات رونما ہوئے وہ ملکی تاریخ میں کئی اعتبار سے منفرد ہیں ۔ ضروری ہے کہ جمہوری اصولوں کو سامنے رکھ کر قوم کو جلد انتخابات کے ذریعے غیر یقینی صورتحال سے نکالا جا سکتا ہے۔ گورنر برطرفی نوٹیفکیشن کے بعد عمر سرفراز چیمہ سے سیکورٹی واپس لے کر گورنر ہاؤس داخلے پر پابندی عائد ہے، اورنئے گورنر کی تعیناتی کیلئے مسلم لیگ ن کے رہنما بلیغ الرحمن کی سمری پر صدرمملکت کی جانب سے تاحال کوئی اقدام نہیں اٹھا یا جا گیا،گورنر نہ ہونے سے پنجاب کابینہ بھی تشکیل نہ دی جا سکی۔
اس آئینی بحران کی وجہ آئین کے دو آرٹیکل ہیں جواس معاملے سے متعلق ہیں۔ دونوں فریق آئین کے آرٹیکل 48 اور آرٹیکل 101جن میں دو مختلف اصول بیان کیے گئے ہیں، بارے اپنی تشریح کررہی ہیں صدر کا انحصار آرٹیکل 101 جبکہ وفاقی حکومت کاآرٹیکل 48 پر انحصار ہے۔ صدر کا مؤقف ہے کہ گورنر کو ہٹانے کے حتمی اختیارات صدر کے پاس ہیں اور وہ کسی کی مشاورت پر عمل کر تو سکتا ہے لیکن وہ لازمی طور پرایسا کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اسکے حق میں دلیل کے طور پر آرٹیکل 101 کی ذیلی دفعہ 3 کوپیش کیا جا رہا ہے جسکے مطابق جب تک صدر کی خوشنودی حاصل رہے گی، تب تک گورنر اپنے عہدے پر فائز رہے گا درج ہے۔ چونکہ صدر مملکت گورنر پنجاب سے خوش ہیں اور انکی خوشنودی گورنر کو حاصل ہے تو اس صورت میں آرٹیکل 101کے تحت گورنر اپنے منصب پر کام کرتے رہیں گے۔ وفاقی حکومت اپنے حق میں آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 1 کو پیش کر رہا ہے، جسکے مطابق ’صدر اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرے گا۔ اس وضاحت میں May کی بجائے Shall کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بتاتاہے کہ صدر اس ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند ہوگا،اور وہ اس ایڈوائس کو رد نہیں کر سکتا۔ذیلی دفعہ 2 صدر کو صرف اتنا سا اختیار دیتی ہے کہ صدر چاہے تو 15 دن کے اندر اندر یہ ایڈوائس واپس بھیج سکتے ہیں کہ اس پر نظر ثانی کی جائے، اور اس نظر ثانی کے بعد بھی اگر کابینہ یا وزیر اعظم وہی ایڈوائس دوبارہ بھیج دیں تو صدر 10 دن (صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
کے اندر اندر اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن یہاں صدر نے ایڈوائس نظر ثانی کیلیے بھیجنے کی بجائے رد کر دی ہے، جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اختیار انہیں کہاں سے حاصل ہوا؟ ذیلی دفعہ ۱یک کے تحت تو صدر اس ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند تھے، وہ محض نظر ثانی کا کہہ سکتے تھے۔ صدر آفس کے نزدیک اسکا جواب آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 2 میں موجود ہے جہاں لکھا ہے کہ دفعہ 1 میں دئیے گئے اصول کے باوجود، اپنے آئینی اختیارات کے استعمال میں صدر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرے گا اور صدر کے ایسے کسی بھی فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 1 میں صدر کیلئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایڈوائس کے مطابق کام کرے اور اسی آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 2 میں اسے اپنی صوابدید کے مطابق کام کرنے کا کہا گیا ہے اور دونوں جگہ May کی بجائے Shall کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔بظاہر یہ تضاد ہے اور آئین کی تشریح عدالت ہی کرسکتی ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت یہ معاملہ عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔اب اہم یہ ہے کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے کیا آرٹیکل 101 کی ذیلی دفعہ 3 کے وہی معنی ہیں جو صدر آفس بیان کر رہا ہے؟ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو عمران خان بھی اب تک وزیر اعظم ہوتے،کیونکہ آرٹیکل91 کی ذیلی دفعہ7میں یہ اصول وزیر اعظم کیلئے بھی موجود ہے کہ جب تک انہیں صدر کی خوشنودی حاصل رہے گی وہ وزیر اعظم رہیں گے۔
درحقیقت وزیر اعظم کے منصب پر رہنے یا نہ رہنے کا صدر کی خوشنودی یا صوابدید سے نہیں بلکہ انکے منصب کے آئینی طریقہ کار سے جڑا ہے۔ یعنی صدر کی خوشنودی یہ نہیں کہ وہ ذاتی طور پر کیا چاہتے ہیں، بلکہ اسکا مطلب یہ ہو گا کہ مروجہ طریقہ کار کے تحت صدر کیا چایتے ہیں۔ صدر اپنے فنکشنز میں وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس پرعمل کرے گا۔آرٹیکل 91کی ذیلی دفعہ ایک میں لکھا گیا ہے کہ ایک کابینہ ہو گی جسکا سربراہ وزیر اعظم ہو گا اور جسکا کام صدر کو اسکے فنکشنز منصبی کابینہ کے فیصلوں کے ماتحت ہوں گے۔صدر کی صوابدید کا تعلق صدر کے اختیارات سے ہے اسکے فنکشنز سے نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صدر کے اختیارات کو اسکے کارہائے منصبی سے الگ کر کے دیکھا جا سکے اور کیا آئین میں کہیں لکھا ہے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہو گا اور اسکا دائرہ کار کیا ہو گا؟کیا گورنر کی برطرفی کا تعلق صدر کے اختیارات سے ہو گا یا فنکشنزسے ہوگا اسکی تشریح ضروری ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک طرف ملک کی معاشی صورتحال یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج 1550 پوائینٹس کے ساتھ کریش کرگئی اور ڈالر192 روپے کی نفسیاتی حد عبور کرچکا ہے۔زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے 22 ارب ڈالر سے کم ہو کر صرف 10 ارب ڈالر رہ گئے۔تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تک پہنچ گیااورملک میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے تجاوز کر گئی، اور دوسری طرف ادارے ملک کو معاشی بحران سے نکالنیاورمعیشت کی بحالی کی بجائے آئینی و سیاسی بحران میں الجھ کررہ گئے ہیں۔
کاشف مرزا