12 مئی کو دنیا بھر میں نرسوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اس شعبے کی اہمیت کو تسلیم کرنا اورنرسنگ کے شعبے سے منسلک خواتین و حضرات کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس دن کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1953 میں امریکہ کے شعبہ صحت اور تعلیم سے منسلک ایک خاتون ڈورتھی سودر لیند نے اس وقت کے امریکی صدر سے مطالبہ کیا تھا کہ نرسوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا جائے۔ لیکن اس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا۔ البتہ تین برس کے بعد یعنی 1956میں نرسوں کی بین الاقوامی تنظیم نے 12 مئی کو نرسوں کا عالمی دن منایا۔ اس کے بعد سے اب تک یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ یہ جملے لکھ رہی ہوں تو خیال آرہا ہے کہ اس دن کو منانے کی روایت تو 1956 میں شروع ہوئی تھی، لیکن اس شعبے یا پیشے کی تاریخ یقینا اس سے کہیں پرانی ہو گی۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں صحابیات کا ذکر ملتا ہے جو جنگوں میں زخمی ہونے والے صحابیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں، انہیں پانی پلایا کرتی تھیں۔ غالبا وہ بھی نرسنگ کا ہی ایک روپ تھا۔ بہرحال اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی گزشتہ چند برسوں سے ہم اس دن کو منانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس دن ہم نرسنگ کے شعبے سے منسلک خواتین و حضرات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں شعبہ طب کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر ہم شعبہ طب کو مسیحائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب بھی ڈاکٹروں کا تذکرہ ہوتا ہے، ہمارے ذہنوں میں فوری طور پر مسیحا کا تصور ابھرتا ہے۔ ہم ڈاکٹروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ ان کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ انہیں ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔ معاشرے میں بھی ڈاکٹر کو اعلیٰ مقام حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب بالکل قابل جواز ہے۔ ڈاکٹر خواتین و حضرات واقعتا اسی عزت افزائی کے مستحق ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں شعبہ طب سے منسلک دوسرے افراد کا خیال شاذ ہی کبھی آتا ہے۔اگرچہ نرسیں شعبہ طب کا ایک نہایت اہم حصہ ہیں۔ ان کی اہمیت کسی طور بھی ڈاکٹر سے کم نہیں ہوتی۔ وہ بھی مریضوں کیلئے مسیحا کا کردار ادا کرتی ہیں۔ دن رات زخمیوں اور بیماروں کی خدمت میں جتی رہتی ہیں۔ مریضوں کی دوا کا خیال رکھتی ہیں۔ ان کی صحت یابی کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ ہر آن مریضوں کے لئے حاضر رہتی ہیں۔ اس کے باوجود بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہم نرسوں کی خدمات کو سراہیں۔ انہیں خراج تحسین پیش کریں۔ یا انہیں ہیرو کا درجہ دیں۔ سال میں صرف ایک دن یعنی 12 مئی کا دن مناتے ہوئے ہم انہیں سراہنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
البتہ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ صورتحال مختلف ہے۔ ان ممالک میں نرسوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں شعبہ نرسنگ کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہاں نرسوں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ انہیں بھاری بھرکم معاوضے اورمشاہرے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس شعبے کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔سنتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے پاکستان میں شعبہ نرسنگ کی بنیاد رکھی تھی۔ تاہم ارباب اختیار نے اس پر اتنی توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باجود یہ شعبہ نشونما نہیں پا سکا۔ نرسنگ کی تعلیم پر توجہ دی جا سکی اور نہ ان کی تعداد بڑھانے کی طرف۔پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک بھر میں نرسنگ کی تربیت کے لئے کم و بیش ڈیڑھ سو ادارے قائم ہیں۔ ان اداروں سے سالانہ 1800 سے 2000 تک رجسٹرڈ نرسز مارکیٹ میں بھجوائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ تعداد ہماری ضرورت سے بہت کم ہے۔ اکنامک سرے آف پاکستان کے چند برس پہلے کے اعداد و شمار میری نگاہ سے گزرے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 62 ہزار 651 نرسیں ہیں۔ یعنی دس ہزار آبادی کے لئے صرف 5 نرسیں۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ نرسوں کے لئے محدود آسامیاں موجود ہیں۔ ان کے معاوضے بھی انتہائی کم ہیں۔ دیگر سہولیات بھی میسر نہیں۔ اصل المیہ یہ ہے کہ اس پیشے کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کو انتہائی حقیر گردانا جاتا ہے۔ حالانکہ مشکل ترین حالات میں نرس خواتین و حضرات مریضوں اور بیماروں کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ کوویڈ وبا کی مثال لے لیجئے۔ جب سگے رشتے دار بھی مریض کو تن تنہا ہسپتالوں میںچھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ یا ان کے قریب آنے سے کتراتے تھے۔ یہ نرسز ہی تھیں جو پوری تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ اس وبا میں بھی خدمت کرنے سے نہیں چونکیں۔ کرونا کے ہنگام تقریبا ایک سو پچاس نرسیں مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے اس وبا کا شکار ہوئیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اس کے باوجود ہم اس شعبے سے منسلک افراد کی اہمیت تسلیم کرنے سے گریزاں رہے اور اب بھی ہیں۔
کل پاکستان میں ہم نے نرسوں کا عالمی دن منایا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک ٹویٹ میری نگاہ سے گزرا۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کرونا کے ہنگام نرسوں کے کردار کو سراہا ہے۔ شعبہ طب کے لئے ان کی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ نرسنگ کے شعبے سے وابستہ خواتین اور مرد حضرات کو بہتر سہولتوں اور معاوضوں کی ادائیگیوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ نرسنگ کے شعبے کے حالات کار میں بہتری، تعلیم و تربیت کا معیار مزید بڑھانے، معاوضوں کو مناسب بنانے کے لئے اصلاحات کریں گے۔ اللہ کرئے کہ یہ فقط کوئی سیاسی اعلان ثابت نہ ہو۔ حکومت نرسنگ کے شعبے سے منسلک افراد کی بہتری کے لئے واقعتا عملی اقدامات کرئے۔ سب سے ضروری یہ بات ہے کہ ہم سب نرسوں کی اہمیت کو تسلیم کریں، جب بھی ان سے واسطہ پڑے ان کو وہی عزت و احترام اور اہمیت دیں جس کی وہ مستحق ہیں۔