اگر عمران حکومت کے آ خری دنوں کی کارکردگی کا جا ئز ہ لیںتو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا غریب اور کیا امیر ، سب حکو مت تو کیا ، ملک کے مستقبل سے ہی ما یو س ہو چلے تھے۔ پا کستان سے با ہر کی بیرونی قوتیں، جن کا مفاد عمران خان کی حکومت میں مو جو دگی سے وا بستہ تھا، وہ بھی عمران کی عوا م میں پذیرائی کو صفر کی جانب سفر کرتا ہو ئے دیکھ رہی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے عمران خان کو نئی زند گی دینے کی غرض سے ان کی ری لا نچنگ کا منصو بہ بنا یا ۔لمبی چو ڑی با ت کئے بغیرکہنا یہ مقصو د ہے کہ سی این این سے نشر ہو نے والا ڈ اکٹر رابیکا کا انٹر ویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہم سب جا نتے ہیں کہ عمران خان کو پاکستان کی تاریخ کی مستحکم ترین حکومت ملی تھی اور وہ ملکی تاریخ کے بھی وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا۔ 2008-13 تک پیپلزپارٹی اور 2013-18 تک مسلم لیگ (ن) کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لینے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس دوران ملکی جی ڈی پی 5فیصد سے زیادہ رہا، فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا، زراعت کے شعبے میں خود کفالت حاصل رہی، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور کراچی میں طویل عرصے بعد امن و امان قائم ہوا لیکن عمران خان نے حکومت میں آتے ہی سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدل دیا جو ایک خطرناک مائنڈ سیٹ تھا، وہ 3سال 7ماہ کنٹینر مائنڈ سیٹ سے باہر ہی نہ نکل سکے، ان کی تقاریر میں اپوزیشن کو رگڑنے کی بات ہوتی تھی جس کے لیے انہوں نے ریاستی اداروں کو بھی استعمال کیا اور وہ آخری دن تک اپوزیشن لیڈر کے مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں نکل سکے جب کہ کامیاب حکومت چلانے کیلئے برداشت، بردباری اور عوام کو ریلیف دینا ضروری ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے کسی بھی حوالے سے کوئی تیاری اور ہوم ورک نہیں کیا تھا، وزارتوں میں اکھاڑ پچھاڑ اور نیب کے خوف سے بیورو کریسی میں عدم اعتماد پیدا ہوا جب کہ اپوزیشن، حکومت مخالف تحریک کو مذہبی رنگ دینے کے بجائے عوامی مسائل، گورننس، مہنگائی اور ناکام خارجہ پالیسی کے بیانیے پر عمل پیرا رہی۔ پی ٹی آئی حکومت میں انتخاب جیت کر شامل ہونے والے electablesعمران خان کے کرشمے سے نہیں بلکہ حکومت میں رہنے کیلئے شامل ہوئے تھے جو عدم اعتماد کے نمبر پورے ہوتے دیکھ کر عمران خان کو چھوڑ کر کیٹ فش کی طرح اپوزیشن سے جاملے۔ عمران خان نے جہانگیر ترین، علیم خان اور دیگر پرانے ساتھیوں کو سائیڈ لائن کیا جنہوں نے وقت آنے پر بدلہ لیا۔ عمران خان کے دورحکومت میں سب سے زیادہ مسائل وزارتِ خزانہ میں دیکھنے میں آئے، اپریل 2019ء میں وزیر خزانہ اسد عمر اور سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگا جو آئی ایم ایف سے بہترین مذاکرات کررہے تھے، انہیں راتوں رات عہدے سے ہٹاکر سینیٹر عبدالحفیظ شیخ اور نوید کامران بلوچ کی نئی ٹیم کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے مقرر کیا گیا جنہوں نے آئی ایم ایف کی زیادہ تر شرائط مان کر ایک سخت معاہدہ کیا جس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے لیکن بعد میں عبدالحفیظ شیخ کو بھی فارغ کردیا گیا اور ان کی جگہ حماد اظہر وزیر خزانہ بنے لیکن عمران خان، حماد اظہر سے بھی مطمئن نہ تھے اور سینیٹر شوکت ترین کو وزارت خزانہ کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ یہی ایف بی آر کے چیئرمین کے ساتھ کیا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت میں ایف بی آر کے 7 چیئرمین تبدیل کئے گئے جن میں جہانزیب خان، شبر زیدی، نوشین امجد، جاوید غنی، عاصم احمد، ڈاکٹر اشفاق احمد اور حالیہ
چیئرمین عاصم احمد شامل ہیں، جنہیں دوسری مرتبہ چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہونے کے باوجود عوامی دبائو پر صنعتی ایمنسٹی اسکیم، پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر اور بجلی کے نرخوں میں 5روپے فی یونٹ کمی، پیٹرولیم لیوی کا خاتمہ اور پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں جون 2022ء تک کمی کا اعلان کیا جس سے قومی خزانے پر 250سے 300ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا اور آئی ایم ایف نے نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے ان سبسڈیز کو واپس لینے کی شرط رکھی ہے جس کے لیے حکومت نے رضامندی ظاہر کردی ہے۔ عمران حکومت میں احتساب اور بیرون ملک سے 200ارب ڈالر کی لوٹی گئی دولت واپس لانے کے نام پر قومی خزانے سے اربوں روپے ادا کئے گئے لیکن بیرون ملک سے ایک ڈالر بھی نہیں لایا جاسکا بلکہ ریکوری کے بغیر براڈشیٹ کو جرمانے کی مد میں 28.7ملین ڈالر اور مجموعی طور پر 63ملین ڈالر (10ارب روپے) پاکستان ہائی کمیشن لندن کے اکائونٹ سے عالمی عدالت کے حکم پر ادا کئے گئے۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی لامحدود حمایت حاصل تھی اور انہیں پنجاب پر کنٹرول بھی حاصل تھا جب کہ اپوزیشن منقسم اور مایوسی کا شکار تھی لیکن عمران خان کے بار بار یوٹرن لینے سے ان کی ناتجربہ کاری اور ریاستی امور سے ناواقفیت جھلکتی تھی جس سے عوام میں ناامیدی بڑھتی گئی۔ پنجاب چلانے کے لیے کمزور قیادت کا انتخاب عمران حکومت کی سب سے بڑی کمزوری بنی جس سے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا جس سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو تقویت ملی۔ عمران حکومت میں سول ملٹری تعلقات، ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی اور حکومت اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے اختلافات بھی سامنے آئے جس سے عمران خان حکومت کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔ عمران خان نے امریکہ، یورپی یونین کارڈ کو جس طرح استعمال کیا، وہ ملکی مفاد میں ہرگزنہیں تھا، کیو نکہ یہ وہ ما ر کیٹس ہیں، جہا ں ہمارے ما ل کی کھپت ہو تی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چا ہیے کہ ہما رے سروں پر آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی تلوا ریں لٹک رہی ہیں۔ ان حالا ت میں معمولی شعو ر رکھنے والا سیا سی کا رکن بھی ان مما لک سے بگا ڑ کی غلطی نہیں کر سکتا۔ اور اب جو عمران خان چین سے ہمدردی جتا نے کی کو شش کر رہے ہیں ، تو حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے دورِ حکو مت میں چین ان کے وزراء کے بیانا ت سے کبھی خوش نہیں تھا۔ اور یہ ہے وہ نکتہ جو اہلِ دانش کی توجہ کا مستحق ہے۔ یعنی ٹھنڈے دل سے غو ر کر یں اور سوچیں کہ کیا کبھی چین مخا لف قو تیں یہ چاہیں گی کہ پاکستان پہ کوئی ایسی پارٹی حکومت کر ے جس کی وفا دا ریا ں چین کے سا تھ ہوں۔؟ ایسے میں ان کی عمران خان کی ری لا نچنگ کی وجہ سمجھنے میں کو ئی دقت پیش نہیں آ تی۔