دوستو،کراچی میں لگتا ہے سورج سوانیزے پر آچکا ہے، انتہا کا گرم موسم ہے، سونے پہ سہاگا بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی اچانک اضافہ کردیاگیا۔ ایسے گرم ترین موسم میںبجلی والوں کو عوام پر رحم کرنا چاہئے لیکن نجانے کون سی چکنی مٹی کے بنے ہیں جب عوام کو بجلی کی شدید ضرورت ہوتی ہے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ جاتی ہے لیکن بجلی کا بل ہر ماہ پہلے سے زیادہ آتا ہے۔ لوڈشیڈنگ پر یاد آیا، بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں بجلی کی اچانک لوڈ شیڈنگ سے دو بہنوں کی اندھیرے میں غلط دلہوں سے شادی ہوگئی۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق رمیش لال نامی شخص کی دو بیٹیوں نکیتا اور کرشما کی ڈنگوارا بھولا اور گنیش نامی لڑکوں سے شادی ہوئی، دونوں لڑکوں کا تعلق الگ الگ خاندان سے تھا۔شادی کی تقریب کے دوران دلہنوں کے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے لیکن دونوں کے کپڑے ایک جیسے تھے، جس وجہ سے شادی کی رسومات کے دوران غلطی کا احساس کسی کو نہ ہوسکا جبکہ پنڈت بھی تقریب کے دوران بے خبر رہا۔دونوں دلہنیں جب اپنے اپنے دلہا کے ساتھ گھر پہنچی تو غلطی کا اندازہ ہوا، جس پر خاندانوں کے درمیان کافی تکرار بھی ہوئی لیکن بعد میں معاملات طے کر لیے گئے۔واقعے کے اگلے روز، دلہا اور دلہن کو دوبارہ شادی کی رسومات ادا کرنا پڑی۔
جنوبی کوریاکی آبادی کے نصف سے زیادہ لوگ شادی کے بعد بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ایک سروے کے مطابق بظاہر ملک میں بچوں کی پرورش کے زیادہ اخراجات کے خدشات کی وجہ سے کوریا کے شہری بچے پیدا کرنے کے خلاف ہیں۔ کوریا ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سروے کے مطابق 52.4 فیصد غیر شادی شدہ اور 20 سال تک کی عمر کے کورین شہری شادی کے بعد بچے پیدا کرنے کے خلاف ہیں۔ پانچ سال پہلے کیے گئے اسی طرح کے ایک سروے میں اِس تعداد میں 23.3 فیصد کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس سروے میں شامل 28.3 فیصد نے کہا کہ وہ شادی کے بعد بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو کہ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں صرف 7 فیصد زیادہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ بچوں کی پرورش کے زیادہ اخراجات اس کے ذمہ دار ہیں۔ امریکی سرمایہ کاری فنانشل گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا میں بچوں کی پرورش کی لاگت فی کس مجموعی گھریلو پیداوار کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ کوریا کم شرح پیدائش کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے کیونکہ بہت سے نوجوان طویل معاشی سست روی اور مکانات کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے شادی کرنے یا بچے پیدا کرنے میں تاخیر کرتے ہیں یا ارادہ ہی ترک کر دیتے ہیں۔جنوبی کوریا میں گزشتہ سال ریکارڈ کم بچے پیدا ہوئے۔ بچوں کی پیدائش میں کمی سے کام کرنے کی عمر کی آبادی میں ایک بڑی کمی کا خدشہ ہے۔
گزشتہ دنوں ماؤں کا عالمی دن منایا گیا،باباجی اس دن کے شدید خلاف ہیں ، کہتے ہیں سال کا ہر دن ہی ماں کا ہوتا ہے، ہمارے پیارے دوست نے اس دن کے حوالے سے ایسا واقعہ سنایا کہ ہمارا دل بھی اداس ہوگیا۔ ہمارے پیارے دوست کہنے لگے کہ۔۔میرا کالج کاایک دوست ہے، پوری فیملی باشرع پردہ کرنے والی، اس گھر کے تمام مرد محلے کی مسجد میں باجماعت نماز پابندی سے اداکرتے ہیں۔ایک روز میں اپنے دوست سے ملنے گھر پہنچ گیا۔ گھر کی بیل بجائی کچھ دیر بعد اندر سے ایک نسوانی آواز میں پوچھا گیا، کون؟؟ میں نے آنے کا مقصد بیان کیاتو دروازے کی اوٹ سے آواز آئی ۔۔بیٹا تم کچھ دیر بعد آجانا، نعمان ابھی گھر پر نہیں ہے۔۔یہ سن کر میں واپس آگیا۔ لیکن اس بار جب میں نے نعمان کی اپنی باپردہ ماں (جو اپنے بیٹے کے عمر کے اس کے دوستوں سے بھی پردہ کرتی تھی )کے ساتھ اس کی تصویر فیس بک پر دیکھی تو دل مسوس کر رہ گیا۔۔ کیا یہ دن منانے کے لئے اپنی ماؤں کے ساتھ سوشل میڈیا پر تصویریں ڈالنا لازمی ہوتا ہے؟؟۔۔مائیں، بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔۔ ہم بھی یہ واقعہ سن کر اداس سے ہوگئے۔ ۔ماں کسی امیر کی ہو یا غریب کی سب کے لئے قابل احترام ہوتی ہے۔دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک نے ایک پوسٹ کی، جو ان کی والدہ کو پسند نہیں آئی، اور انہوں نے سب کے سامنے ہی بیٹے کو ڈانٹ دیا۔ ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک نے ٹوئٹر پر پُراسرار حالات میںاپنے مرنے کے بارے میں بات کی، جس پر صارفین سمیت ان کی ماں بھی حیران ہو گئیں۔ ایلون مسک نے لکھا کہ اگر میں پُراسرار حالات میں مر جاتا ہوں، تو آپ کو جان کر اچھا لگے گا۔ جس پر ان کی والدہ نے انہیں ڈانٹا اور لکھا کہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔
بات سوشل میڈیا کی ہورہی ہے۔۔چاہے یہ انسٹا گرام ہو یا ٹک ٹاک، ہم میں سے اکثر لوگوں نے اپنے سمارٹ فون میں ایسی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز انسٹال ضرور کر رکھی ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے ہم کھو جاتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف ایک ہفتے تک سمارٹ فون استعمال نہ کرنے سے ڈپریشن اور تفکرات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ماہرین نے اسے ڈیجیٹل ڈی ٹوکس کا نام دیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ کے ماہرین کی ٹیم نے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور لوگوں کی اکثریت کیلئے یہ چیز اٹوٹ انگ بن چکی ہے جس کے انسانوں کی شخصیت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روزانہ کی بنیاد پر گھنٹوں سوشل میڈیا ایپس استعمال کرنے کے بعد اگر زندگی میں منفی رجحان پایا جاتا ہے تو آپ کو چاہئے کہ چند ہفتوں کیلئے ان کا استعمال بند کر دیں۔ ماہرین کے مطابق، جو لوگ سوشل پلیٹ فارمز جیسا کہ ٹک ٹاک، انسٹا گرام، ٹوئٹر، فیس بُک وغیرہ سے سات دن تک کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ان کی زندگی میں بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے جسے وہ خود بھی واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ تحقیق کے دوران 18 سے 72 سال کے 154 لوگوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ کیلئے سوشل میڈیا بند کر دیا گیا جبکہ دوسرے کیلئے یہ پابندی بالکل نہیں تھی۔ اوسطاً ہر فرد روزانہ کی بنیاد پر 8 گھنٹے سوشل میڈیا استعمال کرتا رہا۔ سروے کے اختتام پر ان لوگوں سے ان کے تفکرات، ڈپریشن اور مثبت سوچ کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔ جن لوگوں نے ایک ہفتے تک سوشل میڈیا استعمال نہیں کیا ان کی ذہنی حالت میں 46 سے 55.9 فیصد تک بہتری دیکھی گئی۔ ان لوگوں کے ڈپریشن میں 7.46 سے 4.84 فیصد تک کمی واقع ہوئی جبکہ تفکرات میں 6.92 سے 5.94 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جب نیند آتا ہے تب بجلی جاتا ہے۔۔جب زیادہ نیندآتا ہے زیادہ بجلی جاتا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔