بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع جودھ پورکے قصبے بھیلواڑہ میں ایک 72 سالہ ہندوکو مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی طرف سے مبینہ طور پر چاقو کے وار کئے جانے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ فرقہ وارانہ تصادم کے دوران کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق اس معاملے میں اب تک تین ملزم گرفتار کئے گئے جو سبھی نابالغ ہیں۔ حکام نے علاقے میں انٹرنیٹ کو بھی معطل کر دیا ہے۔ ہندوتوا تنظیموں وشوا ہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ نے علاقے میں ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے جس کیلئے بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔
انتہا پسند ہندو جماعت کے سربراہ بھگوان گوئل نے وزیر داخلہ امیت شا کو میمورنڈم دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ثقافتی مقام قطب مینار جو مسلم حکمران قطب الدین ایبک نے تعمیر کرایا تھا، دراصل وشنو ٹیمپل تھا لہذا اس مسلم ثقافتی ورثے کو وشنو مندر میں تبدیل کیا جائے۔ انتہا پسند ہندو جماعتوں بالخصوص یونائیٹڈ ہندو فرنٹ کے کارکنان قرون وسطیٰ کے آثار قدیمہ کے عجائب گھر قطب مینار میں ہندو تہوار ہنومان چالیسہ منانے جمع ہوئے۔ مذہبی گیت گائے اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ ثقافتی ورثے میں جمع ہوکر نعرے بازی کرنے پر پولیس نے یونائیٹڈ ہندو فرنٹ کے سربراہ جے بھگوان گوئل کو گرفتار کرکے گھر میں نظر بند کردیا۔
نفرت پھیلانے کے لیے مشہور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما سنگیت سوم نے ریاست اتر پردیش کے شہر بنارس میں واقع مغل دور کی ’’ گیانواپی مسجد‘‘ کو بھی بابری مسجد کی طرح منہدم کرنے کی کھلی دھمکی دی ہے۔ اس نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب جیسے لوگوں نے مندر کو گرا کر گیانواپی مسجد بنائی ہے اور اب مندر کو واپس
لینے کا وقت آگیا ہے۔ کانگریس کے ترجمان سریندر راجپوت نے سوم کے متنازع اور غیر ذمہ دارانہ بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل بی جے پی کا گیم پلان ہے کہ معاشرے میں بدامنی اور تقسیم پیدا کی جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بی جے پی اس طرح کے بیانات سے سماجی تانے بانے کو پہنچنے والے نقصان کا احساس کرے گی۔ گیانواپی کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے اور اسی طرح تاج محل کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے گا۔ اور ہم خطرناک وقت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
دوسری طرف بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان مخالف جذبات میں روزانہ کی بنیاد پر واقعات پیش آ رہے ہیں جہاں اب مساجد میں اذان کی آوازیں دھیمی رکھنے کا کہا گیا ہے۔ بھارت کی بڑی مساجد میں سے ایک مسجد کے مرکزی خطیب اشفاق قاضی نے بتایا کہ انہوں نے مغربی ریاست میں ہندو سیاستدانوں کے مطالبے پر 900 سے زائد مساجدوں میں اذان کی آوازوں کو دھیما رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ ہماری مساجد سے آنے والی اذانوں کی آواز ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ یہ مسئلہ فرقہ وارانہ رخ اختیار کرے۔
بھارت میں ہندو انتہا پسند رہنما راج ٹھاکرے نے اپریل میں بھارت میں مساجد سے آنے والی اذانوں کی آوازوں کو کم رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ راج ٹھاکرے کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ان کی جماعت کے کارکن مساجد کے باہر بھارتی رسوم بطور احتجاج ادا کریں گے۔
راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس بھارت کی ایک ہندو تنظیم ہے جو خود کو قوم پرست تنظیم قرار دیتی ہے۔ اس کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار ہے جو ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔ یہ بھارت کو ہندو ملک گردانتا ہے اور یہ اس تنظیم کا اہم مقصد بھی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ چند دہشت گردانہ بلکہ مسلم کشی کے معاملوں میں اس تنظیم کا ہاتھ رہا ہے۔بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرست ہے۔
آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے طورپرظاہر کرتی ہے مگر اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے حال ہی میں بڑی خطرناک بات کر کے سب کو چونکا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہنگامی صورتحال میں آر ایس ایس صرف تین دن میں 20 لاکھ کارکنوں کو جمع کر کے میدان جنگ گرم کر سکتی ہے۔ یعنی وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی تنظیم ایک باضابطہ فوج سے بہت بہتر ہے۔ بدقسمتی سے آرایس ایس نے تمام قوانین کو پامال کیا۔ آرایس ایس نے ثابت کیا ہندو توا دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے ہر قسم کی بین الاقوامی جنگ بندی کی اپیل کی ہے لیکن ہندوستان ہندو توا کو فروغ دے رہا ہے۔
بی جے پی نے 2019میںدوبارہ انتخابات جیت کر جواقدامات کئے ہیں اس کے بعد کوئی شبہ نہیں رہ جاتاکہ مودی بھارت کو صرف ہندوئوں کا ملک بنانا چاہتا ہے۔ مودی سرکار نے بھارتی آئین کی روح سیکولرازم کو ختم کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی دستوری حیثیت کا خاتمہ، مقبوضہ کشمیر کے عوام کوتقریباً نو ماہ سے گھروں میں مقیدکر دینا‘ آسام کے 19 لاکھ مسلمانوں کی شہریت ختم کر کے ان کے سروں پر ملک بدر ی کی تلوار لٹکا دینا اور حال ہی میں شہریت کے ترمیمی ایکٹ کا نفاذ اور اس سے پہلے بابری مسجد کو رام مندر بنانے کے لیے ہندوئوں کے حوالے کر دینا، یہ ایسے ٹھوس ثبوت ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت نے سیکولرازم اور جمہوریت کو خیرباد کہہ کر ایک ایسی راہ اپنا لی ہے جس کا مقصد رام راج کا قیام ہے۔