سیاسی لیڈران کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں یا جانتے بو جھتے نظر انداز کر رہے ہیںکہ ملک میں سیاسی اکھاڑا جو روز لگتا ہے اس سے معیشت پہ روز بہ روز منفی اثرات واضح ہو رہے ہیں۔موجودہ صورتحال میں روپے کی قدر میں استحکام کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ایک ڈالر کی قیمت 193تک پہنچ گئی ہے۔مگر ایک بات جوہم نے تمام سیاستدانوں کو کہتے سنا ہے کہ یہ معاشی ابتری موجودہ گورنمنٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہے مزید ایک اور بات کہ معاشی ابتری کو درست کرنے کے لیے ہمیں وقت دیا جائے اتنی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ایک مدت اقتدار کافی نہیں۔
اس بات کو سُن کر ایک بات یاد آگئی،ایک دن موسم بہت سہانا تھا ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی ایک گائوں کا چوہدری موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اُس نے اپنے مزارے کو آواز دی ،کچھ ہی لمحوں میں وہ حاضر ہوا ،چوہدری صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ اس خوبصورت موسم میں اگر پکوڑے کھانے کو مل جائیں تو کمال ہو جائے،مزارے نے کہا کہ جناب ابھی لا دیتا ہوں ،مزارہ گیا اور کچھ ہی دیر میں پکوڑے لے آیا ،چوہدری نے موسم ،اور پکوڑوں کو انجوائے کیا تو جس اخبار میں پکوڑے لپیٹ کے آئے تھے وہ پڑھنے لگا کہ اُس میں گو رنمنٹ کی طرف سے زمینداروں کے لیے بیجوں کی سکیم نکلی تو چوہدری صاحب پڑھ کے نہایت خوش ہوئے ،فوراً سے اُس نے اپنے ملازم خاص کو بلایا جو کہ ساتھ ہی رہتا تھا اور ذات کا میراثی تھا۔
چوہدری صاحب نے میراثی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ شہرجا کے بیج لائے تاکہ وقت سے پہلے وہ اُن بیجوں کی بوائی کی تیاری کر لے،اب میراثی شہر پہنچ گیا اس کے جاننے والے شہر رہتے تھے ،تو میراثی نے کہا کہ میں چند روز آرام کر لوں سفر نے تھکا دیا ،ایک دن وہ گھومنے کے لیے نکلا تو شہر کی لائٹوں سے بہت محظوظ ہوا بولا کہ چند دن شہر رہ کے گھوم پھر لوں اسی اثنا میں ایک سال بیت گیا تو گائوں میں چوہدری کو خیال آیا کہ کافی روز بیت گئے ہیں میراثی
واپس نہیں آیا تو اُس کو واپس لانے کے لیے اُس نے ایک اور ملازم بھیجا جو میراثی کو واپس لایا،جس دن میراثی واپس آیا تو گائوں میں گھمسان کی بارش ہوئی تو میراثی بیجوں کی بوری کندھوں پہ اُٹھائے لا رہا تھا کہ وہ کیچڑ پر سے پھسل گیا تو چوہدری صاحب نے اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایاتو میراثی نے کہا واہ چوہدری صاحب تواڈیاں کالیاں نے مار دیتا۔۔۔یہ میراثی کا ڈائیلاگ سُن کر چوہدری صاحب کا تو حیرانی سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔
اب اس ساری بات پہ غور کریں کہ صورتحال اُس میراثی جیسی ہو گئی ہے کہ 5سال پورے ہونے کو آجاتے ہیں تو یہی لفظ سُننے کو ملتا ہے۔۔۔ تواڈیاں کالیاں نے مار دیتا جے۔۔۔خدارا اب تو سمجھ جائیے اب تو بہت دیر ہو چُکی ہے ،زرمبادلہ کے ذخائر دو ماہ کی در آمدات سے کم سطح پہ آچُکے ہیں فی الحال آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط کے سوا ،ان ذخائر میں کسی بڑے اضافے کا امکان نہیں۔سٹاک ایکسچینج گزشتہ 5ماہ سے بدترین حالات سے گزر رہی ہے،اس وقت موجودہ صورتحال سے جو محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے سرمایہ داروں کا اعتماد جیسے اُٹھ چُکا ہے اس کا اندازہ کاروباری روز شروع ہونے پہ اندازہ صرف گزشتہ پچھلے ہفتے سے لگایا جا سکتا ہے ،جس میں 228ارب ڈوب گئے یہ صورتحال غیر معمولی ہے اس میں مزید غفلت کے ہم متحمل نہیں کہ اب بھی یہی لفظ کہیں کہ۔۔ تواڈیاں کالیاںنے مار دیتا جے۔۔
معیشت کی عدم استحکامی ظاہر ہے جب سیاسی رویے ایسے ہونگے تو اُس کا منفی اثر تو پڑے گا۔اگر ان سیاسی لیڈران کو ملک و قوم کی فکر ہے،اگر معاشی ابتری سے نکلنا ہے، اگر قومی معیشت کو سری لنکا جیسی تباہی سے بچانا ہے تو اس کا آغاز معیشت کی مرمت میں نہیں بلکہ سیاست کی ہم آہنگی کی کوششوں سے کرنا ہو گا۔جب تک سیاسی جماعتیں ،سیاست کے معیاری رموز سے واقفیت اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی حاصل نہیں کرتیں،ملک میں سیاست اور معیشت کے بحران ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
اس وقت ہماری درآمدات، بر آمدات سے دوگنا سے زیادہ ہے ،ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے جسکی 60%آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے،جنھیں روزگار کے مواقع چاہئے، ذرا سوچئے! ایک ایسا ملک جس کے جی ڈی پی کی شرح نمو چار فیصد کے قریب ہے وہ ملک اپنے 60%سے زائد نوجوان آبادی کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتا ہے؟
ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ان معاملات کو سمجھنے کے لیے سوچ کر اپنے ذہنوں پہ زور دینا ہو گا کہ کیسے اس ملک کو سیاسی ابتری اور نوجوانوں کو بے روزگاری سے نکالا جا سکے ،اس اہم ایشو کو حل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پہ اکٹھا ہونا پڑے گا سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے، لہٰذا سیاسی رہنمائوں اور قومی اداروں کو ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے متحرک ہونا پڑے گا۔
الزام تراشیاں، گالم گلوچ، بہتان بازیاں، غداری کے طعنے سب بہت ہو چُکے ان سب چیزوں کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے پیچھے چھوڑنا ہو گا ورنہ اس موجودہ معاشی تنزلی کے نتائج نہایت سنگین ہوسکتے ہیں۔کچھ سیاسی رہنمائوں کی طرف سے یہ بات زور دے کے کہی جا رہی ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہو ،مگر لگتا نہیں ہے کہ ان اختلافات کو انتخابات بھی ختم کر سکے کیونکہ ہمارے ہاں انتخابات کے نتائج کو بھی نہ ماننے کا رواج ہے،اب ایک اور بات جو طول پکڑ چکی ہے وہ بیرونی مداخلت ہے،یہ بات بھی آگے چل کے نہایت خطرناک ہو جائے گی ۔
اس وقت حکومت کہہ رہی ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیے بنا گزارہ نہیں جبکہ روپے کی قدر میں گراوٹ کے سبب انرجی سمیت تمام درآمدی اشیا مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے ،لوگ خوراک کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں جبکہ صنعتی کساد بازاری سے روزگار کے مواقع بتدریج کم ہو رہے ہیں۔یوں سیاسی بحران، معیشت کو مکمل طور پہ اپنی لپیٹ میں لے چُکا ہے اس بحرانی کیفیت سے ملک کو نکالنا پورے قومی سیاسی رہنمائوں کے لیے ایک چیلنج ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کو ملکی مفاد پیارا ہے یا اپنا سیاسی؟