اسلام آباد: قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کا آغاز ہوگیا راجہ ریاض کہتے ہیں کہ کسی بھی حکومت نے کسانوں کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ اسی طرح حکومتوں نے ڈیمز پر کام نہیں کیا۔ شہبازشریف حکومت نے تعلیم پر بہت کم بجٹ رکھا ہے۔
سپیکر راجہ پرویزاشرف کی صدارت میں قومی اسمبلی اجلاس میں بجٹ پر بحث کا آغاز ہوگیا۔ قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت کی بالا دستی کیلئے دعا کی اور کہا کہ اس وقت ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود پاکستان روز بروز قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔
راجہ ریاض نے کہا کہ غریب کو سہولیات دینے سے معاشی ترقی ہوگی ۔ غریب اور مڈل کلاس کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ان افراد کو روزگار اور چھوٹے کاروبار کیلئے مواقع دینے ہوں گے۔ آصف زرداری کی سربراہی میں پاکستان کو زرعی ملک بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ گندم اور کاٹن میں خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا گیا ۔ گندم اور کپاس میں خودکفیل ہونے کیلئے سستی بجلی، ڈیزل کسان کو دے سکتے ہیں؟ کیا کسان کو سستی کھاد فراہم کی جاسکتی ہے؟ بجلی اور ڈیزل پر سبسڈی دی جائے تو پاکستان زراعت میں خودکفیل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آج تک کسان کو دوائیاں، ڈیزل اور بجلی پر ریلیف نہیں دیا گیا۔ اس حکومت نے کسان کی بہتری کیلئے وہ اقدامات نہیں کیے جو کیے جانے چاہیئں تھے ۔ حکومت زراعت کی بہتری کیلئے بجٹ میں ضروری اقدامات کرے ۔ حکومت نے امپورٹڈ اشیاء پر پابندی لگائی لیکن سمگلنگ نہیں روکی۔
راجہ ریاض نے مزید کہا کہ پاکستان میں سگریٹ تک سمگل ہوکر آتے ہیں،ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے حکومت کو واضح اقدامات کرنے ہوں گے۔ فیصل آباد کی صنعت آج حکومت کی جانب دیکھ رہی ہے ۔ صنعت کار سستی بجلی اور ڈیزل کیلئے حکومت کی جانب دیکھ رہی ہے ۔ گزشتہ حکومت سے ملے لوڈشیڈنگ کے ورثے سے صنعت کو بچانا ہوگا۔ پہاڑوں، سمندر کے اندر موجود وسائل کے استعمال کیلئے بجٹ میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے وزیر نے تسلیم کیا کہ چار سال میں 76 فیصد قرضہ لیا ہے ۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے جان چھڑوانے کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے ۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑوانے کیلئے دیرپا منصوبہ بندی کی جائے ۔ غریب کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنا ہے تو قرضوں کے چنگل سے باہر نکلنا ہوگا۔
راجہ ریاض کہتے ہیں کہ گزشتہ چار سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ آج پورا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب کا شکار ہے۔ 12 13 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے،حکومت لوڈشیڈنگ کے عذاب سے قوم کو جلد از جلد نجات دے۔بدقسمتی سے پاکستان بنانے سے آج تک ڈیم نہیں بنائے گئے۔ ڈیم نہ ہونے سے لوڈشیڈنگ اور فصلوں کیلئے پانی نہ ہونے کا مسئلہ ہے،ڈیم پاکستان کی بقاء کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ حکومت ڈیم بنانے پر خصوصی توجہ دے،بھارت پاکستان کے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو خشک کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ حکومت رینیو ایبل ذرائع سے توانائی بنانے پر توجہ دے،پاکستان میں ہوا سے بجلی بنانے کیلئے بجٹ میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا سولر سسٹم پر ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے،پاکستان سولر سسٹم سے بجلی پیدا کر سکتا ہے ۔ حکومت ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کے منصوبوں کیلئے بجٹ میں فنڈز رکھے ۔ کسانوں کے ٹیوب ویلز کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ اس بجٹ میں تعلیم کیلئے بھی کم پیسے رکھے گئے ہیں،شہباز حکومت نے بجٹ میں تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کیا ہے ۔تعلیمی نظام میں جدت تک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔
بجٹ میں صحت کے شعبے کیلئے بھی خاطر خواہ فنڈز نہیں رکھے گئے۔ لوگ سرکاری اسپتالوں میں مجبوری میں مرنے کیلئے جاتے ہیں،سرکاری اسپتالوں میں ادویات اور ڈاکٹر تک موجود نہیں،پرائیویٹ سیکٹر صحت کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکے مار رہا ہے۔
راجہ ریاض نے کہا کہ پاکستان کا عدالتی نظام تیزی سے تباہی کی جانب جا رہا ہے۔ پاکستان میں غریب اور امیر کیلئے انصاف کا معیار الگ ہے،عدالتوں میں زیر التواء مقدمات سے ہی کارکردگی کا پتہ چل جاتا ہے۔ پولیس میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،پولیس اور عدالتی نظام میں بہتری موجودہ حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سال میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی،تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے آئیں ملکر قوم کو مسائل سے نکالنے کیلئے راستہ بنائی ۔اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے مختصر ترین تقریر کی۔ خواجہ آصف نے نشست پر جاکر راجہ ریاض کو تھپکی دی ۔اپوزیشن لیڈر تقریر کے ساتھ ہی ایوان سے چلے گئے۔
جی ڈی اے کے غوث بخش مہر نے کہا کہ بجٹ میں رکھے اہداف غیر حقیقی اور ناقابل عمل ہیں۔ بجٹ میں گزشتہ حکومت پر مہنگائی بڑھانے کا الزام لگایا گیا،پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہر شعبے پر اثر پڑا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے ڈے ہر چیز مہنگی ہوئی۔خدشہ ہے پٹرول کی قیمت 400 روپے سے بڑھ جائے گی،حکومت بتائے کہ بجٹ کہاں سے عوام دوست ہے ۔ اپوزیشن لیڈر نے ٹی وی پر کہا کہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوں گا،ایسے میں اپوزیشن لیڈر اہم فیصلوں میں کیا کردار ادا کر سکے گا۔
غوث بخش مہر کا کہنا تھا کہ پہلے اپوزیشن ایسے بنتی تھی اب ایسے حکومت بنائی گئی ہے،گزشتہ حکومت نے قرضے لیے، موجودہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے در پر پڑی ہے،چین، سنگاپور نے ترقی کی ہم کیوں ترقی نہیں کرسکے،بجلی مہنگی ہونے سے فرٹیلائزرز کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا،ہر حکومت پچھلی حکومتوں پر الزامات لگا کر گزارا کرتی ہے،جب پتہ تھا کہ ایسے مسائل ہیں تو کیوں اس کھڈے میں خود گرے ۔
انہوں نے کہا کہ آٹا، دالیں آج پاکستان امپورٹ کر رہا کے شرم کا مقام ہے،بڑے ممالک زراعت پر سبسڈی دیتے ہیں پاکستان کیوں سبسڈی نہیں دے رہا،حکومت بجٹ اہداف پر نظرثانی کرے،حکومت کو اس سال 21 ارب قرضے واپس کرنے ہیں، 9 ارب ڈالر کے ذخائر کے ساتھ قرضے کیسے واپس کریں گے؟ سندھ کو ایک مہینے سے پانی نہیں دیا گیا ۔ فصلیں تباہ ہوگئیں،بجٹ بحث کے موقع پر وزیر خزانہ ایوان میں موجود ہی نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران سندھ میں افسران کے ردوبدل کیے جارہے ہیں ۔
غوث بخش مہر کا کہنا تھا کہ حکومت عمران خان فوبیا کو چھوڑے اور کارکردگی پر توجہ دے،حکومت قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی پیداوار کو بڑھانے کے اقدامات کرے ۔ حکومت اب سنجیدہ ہوکر عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کرے۔
دوران اجلاس رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے گرفتار رکن علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہوتے تھے ہم آج اقتدار میں بھی ہیں تو نہیں جاری ہورہے ہیں۔