پاکستان کے آئندہ مالی سال کیلئے پچیس کھرب روپے سے زائد خسارے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے جس کی وفاقی کابینہ نے منظوری دیدی ہے۔بجٹ میں وفاق کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ پچانوے کھرب تین ارب روپے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ٹیکس وصولی کا ہدف ستر کھرب روپے ہے۔ وفاقی بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم بائیس کھرب تریسٹھ ارب روپے رکھا گیا ہے، جس میں وفاق کے ترقیاتی پروگرام کیلئے آٹھ سو ارب روپے اور صوبوں کیلئے چودہ کھرب تریسٹھ ارب روپے ہے۔ پی ایس ڈی پی میں سے صوبوں اور خصوصی علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک سو پینتیس ارب پچاسی کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ آئندہ مالی سال ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے محض چوالیس ارب سترہ کروڑ روپے، نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے بارہ ارب پینسٹھ کروڑ روپے،تخفیف غربت کیلئے پچاس کروڑ روپے، توانائی کے منصوبوں کیلئے تیراسی ارب دس کروڑ روپے، آبی وسائل کے لیے ایک سو تیراسی ارب اکیس کروڑ روپے، وزارت داخلہ کیلئے نو ارب روپے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے چھ ارب تینتیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔انکم ٹیکس چْھوٹ کی حد چھ لاکھ سے بڑھا کر بارہ لاکھ سالانہ کر دی گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پروفاقی بجٹ میں ڈیرہ اسماعیل خان اور لاڑکانہ کیلئے علیحدہ رقم مختص کرکے ایک امتیازی روایت قائم کی گئی۔
موجودہ بجٹ اقدامات سے مہنگائی کی شرح بیس فیصداضافہ ہوگااور ٹیکس آمدن کیلئے بارہ فیصد کا ہدف رکھا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسز میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔صنعتی سبسڈی ختم کرنے سے صنعتیں بند ہونے کا خدشہ ہے جبکہ تعمیراتی صنعت پرمزید ٹیکس بڑھانے سے گھر بنانا مزید مشکل ہوگا۔ بجٹ میں کچھ ایسے ٹیکسزاورلیویز شامل ہیں جن کا بجٹ تقریر میں ذکر نہیں تھا لیکن فنانس بل میں یہ شامل ہیں اور ان کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا جس کا بڑا نشانہ متوسط طبقہ ہو گا۔ بجٹ میں سب سے بڑا اضافہ تیل مصنوعات پر پٹرولیم لیوی کی مدمیں اگلے مالی سال میں 750ارب روپے اکٹھے کرنے کاہدف ہے۔اس کا مطلب اگلے مالی سال کے شروع میں ایک لیٹر پٹرول اور ڈیزل پر تیس روپے صارفین سے وصول کرنے پڑیں گے۔ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 25 ارب اکٹھے کرنے کا نظرِثانی ہدف ہے اور حکومت نے اگلے مالی سال کیلئے اس مد میں دو سو ارب کا ہدف مقرر کیا ہے جو گیس بلوں میں وصول کیا جائے گا۔ اس طرح حکومت نے ایل پی جی پر لیوی کا موجودہ ہدف پانچ ارب سے آٹھ ارب کر دیا ہے۔ محصولات کا ہدف سات ہزار ارب رکھا گیا ہے جس میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں ساڑھے چار ہزار ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے جس میں سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی شامل ہے جو صارفین کو چیزوں کی فروخت اور ملک میں ہونے والی درآمدات پر لگایا جاتا ہے۔اگلے مالی سال میں متوسط طبقے کو بجلی، گیس اور پیٹرول کے زیادہ نرخ ادا کرنے پڑیں گے کیوںکہ سیلز ٹیکس اور لیوی کے باعث ان بلز کی رقوم کے علاوہ مہنگائی کی شرح میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔ اگر حکومت ڈائریکٹ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لاتی اور اس کے ذریعے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف پورا کرتی تو اس سے ان ڈائریکٹ طریقے سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس کم ہوتا اور اس کا متوسط طبقے پر کم اثر پڑتا۔آئندہ سال میں مہنگائی کی شرح کا ہدف 11 فیصد رکھا گیا ہے جو غیر حقیقی ہے کیونکہ اس وقت بھی فوڈ انفلیشن بیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ملک میں صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے تو اس کے ساتھ ٹیکس سلیب میں رد و بدل سے تنخواہ دار طبقے کو کچھ فائدہ ہو گا۔ملک میں کام کرنے والے تنخواہ دار طبقے کا ستر فیصد حصہ غیر رسمی معیشت میں کام کرتا ہے جن کی تنخواہیں مہنگائی کے اس دور میں بڑھانا حکومتی اقدامات نے ناممکن بنا دیا ہے۔ اضافی ٹیکسز کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح بے حد اضافے کا خدشہ ہے جس سے اس طبقے کی قوت خرید کم ہو گی نتیجتاًیہ طبقہ خوراک اوربچوں کی تعلیم پرکم خرچ کریگا، جس سے نسل نو کی صحت اور تعلیم بری طرح متاثر ہوگی،اس بجٹ کا سب سے برا اثر متوسط طبقے پر پڑے گا۔
پاکستان میں معیشت کی شرح نمو چھ فیصد ہے لیکن اصل چیلنج دہرے خسارے کا ہے۔ یعنی ہماری درآمدات زیادہ ہیں برآمدات کم ہیں، دوسری طرف ہمارے خرچے زیادہ ہیں لیکن ریوینو کم ہے۔ مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 14 فیصد جبکہ صرف اشیا خورد و نوش سے متعلق مہنگائی کی شرح 20 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ تقریباً ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ہے اورسارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ اپٹمااعدادو شمار کے مطابق بجلی اورگیس کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے 25 فیصد انڈسٹری بندہے جبکہ پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے لگائے گئے نئے صنعتی یونٹس بجلی اور گیس کی عدم فراہمی کے باعث بند پڑے ہیں۔ اگر انڈسٹری کا پہیہ رکا تو لاکھوں مزدور بیروزگار ہو جائیں گے جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ شرح سود اوپر جانے سے معیشت مزید سکڑے گی جس کے گہرے معاشی و سیاسی اثرات ہیں۔معاشی ترقی کیلئے ایک طویل مدتی اصلاحاتی حکمتِ عملی بنائی جائے،معیشت کا ڈھانچہ بدلے اورخساروں میں کمی لائے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ہے۔ ہم پیداواری معیشت کے بجائے تجارتی معیشت بن کر رہ گئے ہیں،جس سے درآمدات پر انحصاربڑھتا جائے گا اور ہمارے پاس زرِ مبادلہ نہیں ہو گا تو ہمیں ڈھانچے میں تبدیلی لانی ہو گی۔ضروری ہے کہ صنعت اورزراعت میں ویلیو ایڈیشن لائی جائے تاکہ زرِ مبادلہ میں اضافہ ہواورتوانائی، نالج بیسڈ اکانومی اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں چھوٹ دیں اور سرمایہ کاری کی ترغیب دیں۔رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ میں پاکستان کی مجموعی برآمدات کا حجم 23.30 ارب ڈالر رہا جوگزشتہ سال کے مقابلے میں 22فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات میں ہواہے جس کا مجموعی حجم 14.26 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریبا 22 فیصد بنتا ہے۔پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کا حجم تقریبا 60 فیصد سے زائد ہے اور کپاس کی برآمد میں 782فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ حکومت نے بیرونی قرضوں سے چھٹکارا پانے کیلئے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو بڑھانے پر توجہ دی جس وجہ سے ساڑھے تین سال کے مختصر عرصے میں ایکسپورٹ 18ارب ڈالر سے بڑھ کر 32ڈالر پر پہنچ چکی ہے۔ اب اگر حکومت انڈسٹری کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھاتی ہے تواس سے ایکسپورٹ بتدریج کم ہونا شروع ہوجائے گی جس سے ملک کی معاشی حالت مزید کمزور ہو جائے گی اور پاکستان کی خودمختاری بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی محتاج رہے گی۔مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے خام مال پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں کمی کی جائے۔تجارتی خسارے میں کمی لانے اور درآمدی بل نیچے لانے کیلئے لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی اورڈیوٹی و ٹیکسزکی شرح بڑھانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ معاشی خوشحالی کیلئے تیل اور گیس کی قیمتوں کو خطے کے دیگر ممالک سے بہتر مسابقت کیلئے طویل المدت بنیادوں پرطے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قوم اورسرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکے۔