جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو عوام بہت خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں، شکر ہے ہمارے حق میں کچھ بہتر ہو گا شاید عوام کو آنے والی حکومت اپنی تقریروں سے اتنا متاثر کر دیتی ہے کہ عوام کو لگتا ہے، نیا آنے والا شخص ملک کی کمانڈ سنبھال کر خزانے کو ٹھیک کر دے گا اور ہمارے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرے گا اور ملک میں مہنگائی ختم کر دے گا، پٹرول کی قیمت کم کرے گا مگر یہاں تو سب الٹا ہی ہو جاتا ہے۔ جو حکومت اپوزیشن میں ہوتی ہے وہ پہلے مہنگائی کے خلاف اعلان جنگ کر دیتی ہے بعد میں جب اقتدار میں آ جاتی ہے تو ماضی کی حکومت سے زیادہ مہنگائی عروج پر لے جاتی ہے، ایسی ہی کہانی ہم ماضی سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں 2018 کے انتخابات کی جب پی ٹی آئی نے ملک کی کمانڈ سنبھالی تو کہا کہ ملکی معیشت کا دیوالیہ ہو گیا ہے، خزانہ خالی ہو گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی مہنگائی بڑھے گی اور جب مہنگائی کی تو یہ چیز اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی پارٹیوں سے برداشت نہیں ہوئی اور عوام کے ساتھ بہت محبت کا اظہار کیا اور پی ٹی آئی کے خلاف جلسے جلوس شروع کر دیے۔ اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی پارٹیاں کسی طور حکومت کو ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں اور کہتی تھیں کہ جتنا اچھا ہم ملک کو سنبھال سکتے ہیں ویسے کوئی بھی نہیں سنبھال سکتا۔ جب پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں سالانہ بجٹ پیش کیا تو اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی پارٹیوں نے ان کو ہر بار شور شرابہ کر کے بجٹ نامنظور کہا بلکہ پارلیمنٹ میں بجٹ کی کاپیاں تک اڑائیں گئی اور پارلیمنٹ کو مچھلی منڈی بنایا گیا ایسا تماشا حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے برپا کیا گیا کہ پوری دنیا میں پاکستان کے لیے باعث شرم تھا اور عوام نے جب یہ تماشا دیکھا تو حیران ہوئے اور اس وقت آپ کو کچھ یاد کراتی چلوں۔ میں یہ نہیں بھولیں کہ کرسیوں پر چڑھے پارلیمنٹ کے اراکین بجٹ کی کاپیاں اڑانے میں مصروف رہے اور حکومتی اراکین کو بُرا بھلا کہتے رہے اور حکومتی ارکان بھی اس وقت کم نہ تھے انہوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، وہ بھی اس تماشے میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے وہ بھی کرسیوں پر چڑھ کر اپوزیشن اراکین کو بخوبی جواب دیتے رہے۔ میرے ذہن میں اس وقت یہ بات یوں آئی کہ یہ میرے ملک کے مودب ایوان میں بیٹھے میرے ملک کے مودب سیاستدان ہیں؟ جو اپنے ملک کے مودب ایوان کا تقدس اس طرح سے پامال کر رہے ہیں، میرے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والوں کا لب و لہجہ کیا ہے، کیا یہ واقعی ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے جن کو ایوان میں بیٹھنے کا طریقہ ہی نہیں۔
2018 سے 2022 اپریل تک کی اپوزیشن ہمیشہ سے بجٹ کو نامنظور کرتی اور کہتی رہی کہ پی ٹی آئی نے انتہائی گھٹیا بجٹ پیش کیا ہے عوام کو نوچ نوچ کر کھا گئے ہیں۔ مگر اچانک 2018 اپریل میں ملک کی سیاست کی کایا ہی پلٹ گئی پی ٹی آئی جو 2018 سے حکومت بنائے بیٹھی تھی وہ پوزیشن کی سیٹ پر چلی گئی اور جو اپوزیشن بیٹھی تھی وہ حکومت کی سیٹ پر آ گئی۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت اتری تو عوام نے بھنگڑے ڈالے تھے اور شکر کا کلمہ پڑھا تھا کہ پی ٹی آئی سے جان چھٹی اور جہاں تک شہبازشریف کی بات ہے تو بہت سے لوگ شہبازشریف کو بہت اچھا ایڈمنسٹر مانتے تھے اور جب عمران خان کے اترنے کے بعد عوام کو معلوم ہوا کہ وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے تو عوام نے امید لگا لی کہ شاید ملک کو بہتر کر دیں گے۔ ہمیشہ کی طرح خیالات کے الٹ ہی کہانی ہوئی شہباز شریف کے آتے ہی ملک میں مہنگائی کی لہر اور بڑھتی پٹرول کی قیمت میں بے حد اضافہ ہو گیا اور اس سال کا بجٹ پچھلے سال سے بھی بدتر پیش کیا گیا جس نے مہنگائی کی شرح میں اضافہ کر دیا۔ بہت سی انڈسٹریوں پر ٹیکس عائد کیا گیا وہ بھی بھاری مقدار میں جو میں سمجھتی ہوں بہت اچھی چل رہی تھی جن سے ایک غریب بندے کا روزگار وابستہ تھا مگر افسوس انکم ٹیکس کی وجہ سے اس وقت بہت سی صنعتوں کے بند ہونے کے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ خدارا غریب بندے پر تو رحم کرے آپ کو تو شاید بالکل بھی فرق نہیں پڑتا مگر ایک غریب بندے سے پوچھیں کہ وہ کس طرح اس وقت مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔
اور ہر کوئی اس وقت شدید پریشان ہیں کیونکہ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور آمدنی اتنی کی اتنی ہے یا تو عوام کی آمدن میں اضافہ کریں تاکہ شہریوں کو دشواری نہ ہو اور عوام اپنا گزر بسر اچھے سے کر سکیں یا تو مہنگائی نہ کریں۔ جب آپ نے اقتدار مہنگائی کے خلاف باتیں کر کے لیا ہے تو اگر آپ اسی چیز کو بڑھائیں گے جس پر کل تک آپ عوام کو ایموشنل بلیک میل کرتے رہے ہیں تو یہ اچھی بات نہیں ہے ورنہ آپ رہنے دیتے پی ٹی آئی کے پاس اقتدار۔ چلنے دیتے ڈیڑھ سال ہی تو رہ گیا تھا مگر آپ لوگ عوام کے خیر خواہ بنیں اور آپ نے اتنے خواب دکھائے کہ عوام باتوں میں آ گئے اور جو لوگ اتحادی حکومت بننے پر بھنگڑے ڈال رہے تھے، ان کے لیے بس یہی الفاظ ہیں میرے پاس:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا