ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد
ذاتِ نبی ؐ بلند ہے ذاتِ خدا کے بعد
دشمنانِ اسلام ہمیشہ جب اپنی سر توڑ کوششوں میں ناکام ہونے لگتے ہیں تو پھر امتِ مسلمہ کی برگزیدہ شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی اور گستاخیوں پر اتر آتے ہیں۔ لیکن ہر دور کے مسلمان کے لیے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کسی صورت قابلِ قبول تھی ہے اور نہ کبھی ہو گی۔ قرآنِ کریم میں دو درجن سے زائد آیت ِ مبارکہ ایسی ہیں، جن میں آپﷺ کی حرمت و تقدس کو بہ طور خاص موضوع بنایا گیا اور آپﷺ کی بے ادبی، گستاخی اور ایذا رسانی کو حرام قرار دیا گیا۔ گستاخِ رسولﷺ اگر کسی وجہ سے دنیاوی سزا سے بچ بھی جائیں تو آخرت کے انجام سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ’’اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایزا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت رسوا کن عذاب ہے‘‘۔ سید الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے محبت و عقیدت ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ بقولِ اقبال:۔
محمدﷺکی محبت دینِ حق کی شرط ِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی، تو ایماں نا مکمل ہے
اور علمائے اسلام دور صحابہ سے لے کر آج تک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ آپﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والا آخرت میں سخت عذاب جبکہ اس دنیا میں بھی گردن زدنی ہے۔ خود محمد مصطفیﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے اور دینِ
اسلام کے بے شمار دشمنوں کو معاف فرمانے کے سا تھ شانِ نبویؐ کے گستاخوں کے متعلق فرمایا: اگر وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے بھی ملیں تو انہیں واصلِ جہنم کیا جائے۔ بلاشبہ کسی بھی مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک رسولِ خداﷺ اس کے لیے تمام رشتوں سے زیادہ محبوب و مقرب نا ہوں۔ چند روز قبل بھارتی جنتا پارٹی (بی۔ جے۔ پی) کی مرکزی ترجمان نپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران اسلام اور پیغمبر اسلام، خاتم النبیینﷺ کے حوالے سے انتہائی توہین آمیز گفتگو کی گئی جب کہ دہلی کے میڈیا ہیڈ نوین جندال نے متنازع ٹویٹ کیا۔ یہ کوئی اپنی نوعیت کا ایسا پہلا واقعہ نہیں بلکہ بار بار خبثِ باطن کا اسی طرح برملا مظاہرہ کر کے امت ِ مسلمہ کے جگر چھلنی کیے جاتے ہیں اور مسلمان صرف احتجاج اور مصنوعات کی بائیکاٹ مہم چلا کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: اے حبیبﷺ! کہہ دیجئے کہ تمہارے والدین اور تمہاری اولادیں، تمہارے بھائی، تمہارے کنبے اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے تم نقصان سے ڈر رہے ہو اور وہ آشیانے جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ یہ سب تم کو اللہ اور اس کے حبیبﷺ سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں۔ تو منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نا فرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا (توبہ:۲۴)
کسی بھی ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے بلاشبہ نفرت، اہانت اور بیزاری کا مظاہرہ ہو جاتا ہے مگر محض معاشی یا سفارتی بائیکاٹ اس حساس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں ہے۔ جب تک اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جائے گا تب تک دنیا میں کہیں نا کہیں ایسی قبیح حرکات ہوتی رہیں گی اور امتِ مسلمہ کی دل آزاری کی جاتی رہے گی۔ اللہ رب العزت کو اپنے محبوبﷺ کی عزت و ناموس کی رکھوالی کے لیے کسی مسلمان کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ ہر مسلمان کے ایمان کا امتحان ضرور ہے کہ حبیب خدا محمد مصطفیٰﷺ کی ناموس پر بات آئی تو مسلمانوں کا کردار، ایمان اور عشق محمدیﷺ کیسا رہا۔ رسول اللہﷺ کی اہانت ناقابلِ برداشت عمل ہے، کوئی بھی صاحب ِ ایمان ناموسِ رسالتﷺ پر ہرگزسمجھوتا نہیں کر سکتا۔ گزشتہ کچھ برس سے مغربی دنیا میں ایسے پے در پے واقعات ہو رہے ہیں جن میں رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس کا معاذ اللہ تمسخر اُڑانے اور اہانت کرنے کی قبیح حرکات کی جا رہی ہیں اور مغرب انہیں آزادیِ رائے کے نام پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ضرورتِ وقت ہے کہ مغربی دنیا کو عقل و نقل اور دلیل و استدلال کے ذریعے اس معاملے کی حساس نوعیت سے آگاہ کیا جائے اور آزادیِ رائے کی عالمگیر حدود و قیود کا تعین کرنے کے لیے عالمی اداروں میں آواز اُٹھائی جائے۔ ضرورت اس عمل کی ہے کہ امتِ مسلمہ اجتمائی غیرت و حمیت کا ثبوت دے اور اس طرح کے دلخراش واقعات کو روکنے کے لیے سنجیدہ اور مضبوط لائحہ عمل تیار کرے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے کوششیں بھی عالمی سطح پر ہونی چاہئیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حرمت ِ رسولﷺ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور اپنے حبیبؐ پر جانثاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین