کراچی: مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اثاثے بیچ کر آمدن نہیں بڑھائی جا سکتی۔ یہ اے ٹی ایم بجٹ ہے اس سے صرف حکومتی اے ٹی ایم کو فائدہ ملے گا۔
کراچی میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور لیگی عہدیداران کے ہمرا نیوز کانفرنس کے دوان شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مالی سال 22-2021 کے لیے پیش کردہ بجٹ میں کوئی نئی بات نہیں ہے، شوکت ترین نے وہی بجٹ تقریر کی جو انہوں نے 12 سال قبل پیپلز پارٹی کے دور میں کی تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جو جھوٹ بول کر کام چلارہی ہے، بجٹ کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی حکومتی آمدن کے دعوےغلط ثابت ہوئے ہیں۔ بجٹ کا سارا انحصار ملک کی آمدن کو 24 فیصد بڑھانے پر ہے، اثاثے بیچ کر آمدنی کو بڑھایا نہیں جاسکتا۔ ن لیگ کے 5 سال میں خسارہ ساڑھے7 ہزار ارب تھا جب کہ پی ٹی آئی حکومت کے 3 سال میں خسارہ 10ہزار ارب سے بڑھ چکاہے، جوحقائق پیش کیے،چیلنج کرتاہوں کہ کوئی وزیراس کو جھٹلادیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ میں فائدہ صرف سرمایہ داروں کو دیا گیا ہے۔ یہ اے ٹی ایم بجٹ ہےصرف حکومتی اےٹی ایم کو فائدہ ملے گا، بجٹ دستاویز کے مطابق 383 ارب کے نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں، 265 ارب بالواسطہ ٹیکسیشن سے حاصل کیے جائیں گے، بالواسطہ ٹیکس لگانے سے بوجھ غریب عوام پر پڑے گا، جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے 1200 ارب کے نئے ٹیکس لگے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت ہماری برآمدات 2018 کی سطح سے کم ہے، حکومت روپے کی قدر کم کرنے کے باوجود برآمدات نہیں بڑھاسکی، مہنگائی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے، 2018 میں گھی پر21 روپے ٹیکس تھا، عمران خان کی ریاست مدینہ میں51 روپے ٹیکس ہے، 53 روپے کی چینی 120 پر لے گئے اور اب مزید ٹیکس بھی لگادیا۔
ن لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ ٹیکس لگانے سے بچوں کے دودھ اور خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے سےعام آدمی پر بوجھ پڑے گا، 2018 میں آٹا 35 روپے کلو تھا آج 80 روپے فی کلوقیمت ہے، 3 سال میں 2 کروڑ لوگ سطح غربت سے نیچے آگئے، آج غریب آدمی 2وقت کیا ایک وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا، مشینری پر 17 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا، اس کے علاوہ خام تیل ،ایل این جی اور آر ایل این جی پر بھی ٹیکس لگا رہے ہیں۔ ایل این جی سے متعلق بہت واویلا کیا گیا، حکومت کو اب پتہ لگا کہ ایل این جی سے ملک کو فائدہ ہورہا ہے۔