اسلام آباد: پانامہ کیس کی تحقیقات کے لئے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے بھی ایف آئی اے کے بعد پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما رحما ن ملک کی حدیبیہ پیپر ملزکیس کی تحقیقاتی رپورٹ کو غیر سرکاری رپورٹ تسلیم کرلیا .مشرف دور میں اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے محمود سلیم محمود نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ رحمان ملک کی تحقیقاتی رپورٹ کا ایف آئی اے میں کوئی ریکارڈ نہیں یہ ان کی ذاتی رپورٹ ہے ۔
تفصیلات کے مطابق پانامہ کیس کی تحقیقات کے لئے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے حدیبیہ پیپر مل کی تحقیقات کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک کو 13جون کو دن 11بجے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی طلب کرلیا ہے ۔سینیٹر رحمان ملک کے آفس کو جی آئی ٹی کے سمن موصول ہوگئے ہیں۔ جے آئی ٹی نے رحمان ملک کو تمام متعلقہ ریکارڈ دستاویزات کے ہمراہ اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لئےآج منگل کو طلب کیا ہے تاہم پیپلزپارٹی کے رہنما نے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے مزید مہلت مانگ لی۔
تفصیلات کے مطابق رحمان ملک کو بذریعہ فون جی آئی ٹی سمن کی اطلاع دی گئی۔ سینیٹر رحمان ملک بیرون ملک دورہ پر ہیں اور اپنا دورہ ختم کرکے وطن واپس آرہے ہیں۔ سینیٹر رحمان ملک نے جی آئی ٹی سے نئی تاریخ لینے کی استدعا کی ہے۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بھی رحمان ملک کی حدیبیہ پیپر مل کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کو غیر سرکاری تسلیم کرلیا ہے اور رحمان ملک کو طلبی کے بجھوائے گئے نوٹس میں اسے رحمان ملک رپورٹ لکھا گیا ہے ۔واضح رہے کہ مشرف دور میں اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے محمود سلیم محمود نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ رحمان ملک کی تحقیقاتی رپورٹ کا ایف آئی اے میں کوئی ریکارڈ نہیں ،یہ ان کی ذاتی رپورٹ ہے۔ رحمان ملک نے اپنی معطلی کے دوران بیرون ملک میں یہ رپورٹ تیار کی تھی ۔
ایک رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے 2 نومبر 1999 کو مشرف دور میں حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمان ملک کی انکوائری کی نوعیت دریافت کی تھی جس کے جواب میں ایف آئی اے نے اپنا موقف 28 جنوری 2000 کو بذریعہ خط وزارت داخلہ کو پیش کیا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط میں رحمان ملک کی 1996ـ97 میں کی جانے والی انکوائری کو ذاتی نوعیت کی تحقیقات قرار دیا گیا تھا۔ خط کے متن میں کہا گیا کہ رحمان ملک نے ایف آئی اے کے طریقہ کار کے مطابق انکوائری نہیں کی۔
خط میں رحمان ملک کی انکوائری کو اس لیے ذاتی نوعیت کی قرار دیا گیا تھا کیونکہ رحمان ملک نے نواز شریف اور ان کے خاندان بارے باقاعدہ رجسٹرڈ انکوائری نہیں کی تھی، نہ تو اس کا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا اور نہ ہی اس کا سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ موجود ہے بلکہ یہ اس وقت سیاسی مقاصد کے لئے شروع کی گئی۔ اسی وجہ سے مشرف دور میں اس پر کوئی کاروائی نہ ہو سکی۔ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محمود سلیم محمود نے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا ۔پانامہ کیس میں عمران خان کے وکیل نے انکوائری میں منی لانڈرنگ ثابت ہونے کا حوالہ دیا تھا.
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں