شاید صدارتی محل کے مکین کو یاد نہ ہو

شاید صدارتی محل کے مکین کو یاد نہ ہو

اسرار الحسن خان مجروح نے بائیں بازو کی تحریک میں خدمات اورہندوستان کی فلمی دنیا میں مجروح سلطان پوری کے نام سے نغمہ نگاری کرکے ابدی شہرت پائی۔ میں انہیں اس زمانے سے پسند کرتا ہوں جب ابھی ساحرلدھیانوی سے واقفیت نہیں ہوئی تھی۔ انسان جنہیں پسند کرتا ہے ان کے بارے میں جاننا بھی چاہتا ہے۔ مجروح سلطان پوری کا مقام میری نظر میں اس وقت ہمالہ سے بھی بلند ہو گیا جب میں نے پڑھا کہ انہوں نے اپنی باغیانہ شاعری کی وجہ سے اپنے آپ کو سیکولر کہلانے والے ہندوستان میں دو سال قید کاٹی اور اس پر طرہ امتیازیہ کہ جب انہیں کہا گیا کہ وہ معافی نامہ دے کر واپس گھر جا سکتے ہیں تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اب بھلا ایسا شخص کیونکر قابل احترام نہ ہو۔ بائیں بازو کی تحریک نے ایسے لاتعداد ہیرے پید ا کیے۔ سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کے بعد اس خطے میں بائیں بازو کی تحریک نتائج کے حوالے سے واحد قابل احترام تحریک ہے جس نے کروڑوں انسانوں کو شعور اور آگہی کے سفر پر روانہ کیا۔ جو کل نہیں مان رہے تھے وہ آج تسلیم کررہے ہیں۔مجروح سلطان پوری بھی سجادظہیر،فیض احمد فیض،ساحر لدھیانوی اور ایسے سیکڑوں ناموں کی طرح انجمن ترقی پسند مصنفین کی قابل احترام ہستی تھے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب ترقی پسند اذہان رکھنے والے نوجوانوں کیلئے لاہورکے کالجز کے دروازے تقریباً بند ہی تھے۔مختلف کالجز سے نکالے ہوئے طلبا کا آخری اکٹھ ایم اے اوکالج لاہور میں ہوا۔یہ 1981 ء کی بات ہے جب جنرل ضیاء الحق کی آمریت وطن عزیز کے سیاہ و سفید کی مطلق العنان مالک و مختار تھی۔ظہیر احمد خان سے میری ملاقات ایم اے او کالج کی کنٹین پر ہوئی اور پھر جلد ہی ہم دوستی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک دوسرے کیلئے درگزر کرنے والے سگے بھائیوں سے بھی زیادہ مضبوط رشتے میں بندھ گئے۔ ظہیر احمد خان دوبہنو ں کا اکلوتا بھائی اوراپنے بوڑھے باپ رئیس الحسن خان کا واحد سہار اتھا۔ گڑھی شاہو کا پل اتر کر دائیں ہاتھ پر واقع ریلوے کی آبادی میں اس کی رہائش تھی۔ جہاں خدا جانے زندگی کے کتنے دن اور کتنی راتیں گزار دیں۔ایم اے او کالج میں قائد اعظم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پرچم تلے ہم نے طلبا میں کام شروع کیا اورایم اے او کالج لاہور جنرل ضیاء کے عہد ستم میں ترقی پسند،لبرل اور روشن خیال طلبا کا مسکن ٹھہرا۔ جسے کہیں پناہ نہ ملتی ایم اے او کالج اس کی آخری پناہ گا ہ ہوتی تھی۔
10 اپریل 1986 ء کی وہ صبح جب محترمہ بے نظیربھٹو شہید پاکستان تشریف لائیں ہمارے لیے عید سے کم نہ تھا۔ طلبا کا سب سے بڑا اجتماع ایم اے او کالج لاہورسے بی بی شہید کے استقبال کیلئے روانہ ہوا اور یہ سب کچھ ظہیر احمد خان ٗلالہ فرح مرغوب ٗمیاں ایوب ٗاحسان اللہ خان بوبی اور ساحردبیر سنی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ 1989 ء میں قائداعظم سٹوڈنٹ فیڈریشن پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن میں ضم ہو گئی۔ میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی
سے مایوس ہو کر علیحدہ ہو گیا لیکن ظہیر خان شاید مایوس ہونے کیلئے نہیں بنا تھا اورپھر ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ظہیر خان پیپلز پارٹی کی دلدل میں اترتا چلا گیا۔وہ صدر آصف علی زرداری کے اتنے قریب ہو گیا کہ ان کی گرفتاری پر محترمہ شہید نے آصف علی زرداری رہائی کمیٹی کی تشکیل دی اور ظہیر خان کو اس کا چیئرمین نامزد کیا۔ جتنا عرصہ آصف علی زرداری نے جیل میں گزارا، یہ دنیا ظہیر خان کیلئے جیل بن چکی تھی۔دنیا کا کوئی ایسا فورم جو آصف زرداری کی رہائی کے لئے کردار ادا کرسکتا تھا اس کا دروازہ ظہیرخان نے ضرورکھٹکھٹایا۔آصف علی زرداری کی پیشی پاکستان میں کہیں بھی ہوتی ظہیر احمد خان اور اس کے ساتھی وہاں موجود ہوتے۔وہ ایک مزدورکا بیٹا تھا اس نے اونٹوں والے سے یاری لگا لی تھی لیکن خدا جانتا ہے کہ اس نے اپنے گھر کے دروازے بھی اونچے کرا لیے تھے۔اس نے سیکڑوں پروگرامز کا اہتمام کیا لیکن ان کیلئے وہ کبھی بھٹویا زرداری خاندان کے کسی فرد کی کوئی مالی امداد لینے کا جرم وار نہیں ہوا۔ اس کیلئے وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کی جیب پر ہا تھ ڈالتا تھا۔ایسے دوست جن کے نزدیک پیپلز پارٹی یا آصف زرداری دونوں اہم نہیں تھے لیکن ظہیر خان کی دوستی تما م دوستو ں کا مشترکہ سرمایہ تھی۔ وہ پاگل پن کی حد تک انقلابی اور اپنے مقاصدحاصل کرنے میں بلا کا جادوگرتھا۔ اس نے زندگی میں مجھ سے جو تحریری مددمانگی میں انکار کی جرات نہ کرسکا۔زندگی کی لاتعداد راتیں میں نے اس کوٹھری نما کمرے میں آصف علی زرداری رہائی کیلئے کا م کیا۔میں آج بھی اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں نے ایک ایسے قیدی کیلئے دن رات کام کیا جس کو اس وقت بھی جیل میں رکھا گیا جب ضمانت اُس کا حق تھا۔آصف علی زرداری کوجیل کی صعوبتوں سے چھٹکارا نصیب ہواتو ظہیر خان کی حالت دیدنی تھی۔لاہورکینٹ میں واقع بلاول ہاؤس میں ظہیر خان نے تمام دوستوں کی آصف علی زرداری سے ملاقات کرائی۔ راقم الحروف بھی اس ملاقات میں شامل تھا۔آصف علی زرداری پاکستان سے روانہ ہوگئے اور 18اکتوبر2007 ء میں محترمہ شہید وطن واپس تشریف لے آئیں ان پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں سیکڑوں ورکروں کی شہادت ہوئی۔ظہیر خان اس جلوس میں موجود تھا میں نے فوری طور پر اسے فون کیا، لیکن وہ محفوظ تھا۔ محترمہ شہید لاہور تشریف لائیں توظہیرخان کی بدولت 1989ء کے بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی وہ بلا کی ذہین تھیں مجھے یہ بات ہمیشہ یاد رہے گی کہ انہوں نے میرا نام لے کر مجھے بلایا۔ میں نے ظہیرخان کوبہت سمجھایا کہ حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں چند دنوں کیلئے احتیاط کرو۔اس کا جواب مجھے آج بھی یاد ہے ”خواجہ صاحب یار کی تے زندگی کی“۔ محترمہ جہاں تشریف لے گئیں ظہیرخان ان کے ساتھ رہا۔اور پھر 27 دسمبر 2007 ء کی وہ خون آلود شام جب محترمہ کوخودکش حملے میں شہید کردیاگیا۔میں نے فوراً ظہیرخان کوفون کیالیکن اس نے میرا فون اٹینڈ نہیں کیا اس کے بعد اس نے میرا فون کبھی اٹینڈ نہیں کیا۔ ایک بڑا آدمی اپنے عہدکی ایک بڑی شخصیت کے ہم رکاب جان دے کر خود گمنام ہوچکا تھا۔
محترمہ کی لاتعداد میلز اسے آتی تھیں جس میں وہ انہیں پیارے بھائی (Dear Brother)لکھتی تھیں۔ پیار ابھائی،دو حقیقی بہنوں اور ان گنت چاہنے والے جانثا ردوستوں کو روتا چھوڑ گیا۔ ظہیرخان نے 28 دسمبر کو میری بارات میں شرکت کا وعدہ کیا تھا لیکن حالات کا جبر دیکھیں کہ میں شادی کی تمام تقریبات منسوح کرکے اس کے جنازے کوکندھا دے رہا تھا۔ صدر آصف علی زرداری نے اس کے گھر والوں کو تعزیتی پیغام میں کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی،بلاول بھٹوزرداری اور آصف علی زرداری ہمیشہ ظہیر خان کے احسان مند رہیں گے لیکن مجروح سلطان پوری نے کہاتھا
مجروح وہ لکھ رہے تھے اہل وفا کا نام
ہم بھی وہیں کھڑے تھے گناہ گا ر کی طرح
تمام تر وعدو ں کے باوجود ظہیر خان کا ضعیف باپ تو دنیا سے چلاگیا اور بہنیں آج کن حالات میں زندگی بسر کررہی ہیں کسی نے مڑکر نہیں دیکھا۔شاید سیاست کی یہ ہی اخلاقیات ہیں۔ کسی سے کوئی گلہ نہیں ظہیر خان مجروح سلطان پوری کا سگا بھتیجا تھا۔ انقلاب،فکری وابستگی اور تنظیم سے وفاداری اس کے خون میں شامل تھی اس نے اپنا فرض اور حق دونوں ادا کردیئے۔زرداری رہائی کمیٹی،زرداری جانثاران میں تبدیل ہو گئی اورپھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔