سیاسی طوفان ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، بلکہ سونامی کی شکل میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ الزامات، جوابی الزامات، برے القابات، وہی چور، ڈاکوئوں کی تکرار اور قومی اداروں کو جان بوجھ کر ملوث کرنے اور ان پر جلسوں، بیانات، اور دیگر ذرائع سے دبائو ڈالنے کی کوششیں اپنے پلے کچھ نہیں، عوام کو کیا بتائیں اقتدار میں رہتے ہوئے کیا کیا ہے؟ گھنائونی سیاست کی لہریں 25 فٹ کی بلندی تک پہنچ رہی ہیں۔ طوفان کا رخ 12 کروڑ عوام کی آبادی کے صوبے پنجاب کی طرف ہے۔ سیانے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ سونامی مثبت سیاست، اخلاقیات، شرم و حیا، محبت مروت سب کچھ بہا لے جائے گا۔ کپتان اپنے مختلف بیانیوں، قتل کی سازش اور نیوٹرل وغیرہ جیسے قصے کہانیوں کی ناکامی اور دھرنوں کی سیاست فلاپ ہوجانے کے بعد جلسوں پر اتر آئے ہیں گزشتہ جمعہ کو ایک دن میں تین چار جلسوں سے خطاب کر ڈالا۔ تمام جلسوں میں ایک سی تقریریں۔ ’’چورو سن لو عوام تمہیں کبھی قبول نہیں کریں گے شریفوں کا پورا خاندان جھوٹ بولتا ہے چیف الیکشن کمشنر ان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ لاہور میں بیٹھا مسٹر ایکس دھاندلی کر رہا ہے‘‘ کہوٹہ کے جلسے میں مفتی اعظم بن کر فتوے دینے لگے کہا ’’مسلمان کے ضمیر کی قیمت لگانے والا شرک کرتا ہے بھگوڑے نواز شریف، چیری بلاسم اور حمزہ ککڑی کو نہیں مانوں گا۔ تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس نے بات اس نے شکایت ضرور کی۔ تقریروں میں سنجیدہ سیاستدانوں والی کوئی بات نہیں، آٹھ دس ہزار حاضرین کو سامنے پا کر آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ الفاظ جذبات کا ساتھ نہیں دیتے۔ لوگوں کا کہنا درست ہے کہ کپتان سیاست میں بھی نوبال کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ دو سابق وزیر فواد چوہدری اور اسد عمر جو نورتنوں میں شامل تھے میدان میں کود پڑے انہوں نے الزام لگایا کہ ووٹرز لسٹوں میں نئے ووٹرز کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ بڑے میاں نے تان اڑائی کہ ٹیلیفون پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کون دھمکیاں دے رہا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ثبوت کی ضرورت نہیں شمع کے پروانے اسی پر نعرے لگاتے ہیں بلند آواز سے الزام عائد کردیں عشاق خود بخود اسے سچ مان لیں گے۔ بخت کے تخت سے یک لخت محروم ہونے والے کپتان حالات سے مایوس ہیں۔ تلچھٹ جو پی رہا تھا ہوس دیکھیے کہ وہ اب کہہ رہا ہے کہ مجھ کو تو مے خانہ چاہیے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھ کر خطاب شروع کرنے والے سابق وزیر اعظم کو کسی نے نہیں بتایا کہ ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ملک کی شاہی (اقتدار) عطا کرتے ہیں اور جس سے چاہے چھین لیتے ہیں۔ مخالفین پر شرک و کفر کے فتوے لگانے والوں کو ارشاد باری تعالیٰ پر ایمان ہو تو جلسوں میں اس طرح بے یقینی کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ ریاست مدینہ قائم کرنے والے لیڈر کے ایک ساتھی تو درود شریف پڑھ کر جھوٹ بولتے ہیں لوگ بر ملا کہنے لگے کہ کپتان ہی نہیں ان کی ٹیم کے گیارہ کھلاڑی بلکہ بارہویں کھلاڑی شہباز گل کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ کسی نے کہا کپتان کو سچی محبت نہیں ملی وہ آج کل اپوزیشن پر گرج رہے ہیں جبکہ کل تک اپنے پیاروں پر برس رہے تھے برا ہو یوٹرن کی عادت کا جس نے ان کے سارے بیانیوں کو بے اثر بنا دیا۔ سیم پیج نہ رہا۔ بیساکھیاں غائب ہوگئیں امپائرز نے منہ منہ موڑ لیا۔ ان کے اچھے دور میں
اپوزیشن کو شکایت تھی کہ ’’رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر، برق گرتی ہے تو ان چاک گریبانوں پر‘‘ اب یہی شکایت بلکہ شکایات کپتان کو ہیں نو بالز کی تعداد میں اضافہ سے اپوزیشن کے سکور میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام سیاست کے رموز سمجھنے لگے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ چار سال کے اقتدار میں چار کام ہی بتا دیں جو کیے ہوں۔ ’’اک بوند بھی نہ دے سکا وہ میری پیاس کو، کہتے تھے لوگ جس کو سمندر بھرا ہوا‘‘ کپتان ایسے الیکشن چاہتے ہیں جن میں انہیں
دو تہائی اکثریت مل جائے تاکہ انہیں اپوزیشن کا خوف رہے نہ اتحادیوں کے الگ ہوجانے کا ڈر، اسی لیے وہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ اکثریت نہ ملی تو نا منظور کے نعرے بلند ہونے لگیں گے سب سے بڑا قومی مسئلہ یہ ہے کہ کپتان کو مطمئن کیا جائے مگر کیسے یہ بات تو اوپر والوں کی سمجھ میں بھی نہیں آرہی ہر ہر بات پر عدالتوں سے رجوع عدالتوں کے دو فیصلے حق میں آگئے تو واہ واہ ایک مخالف آیا تو پٹیشن لیے رجسٹرار کے پاس پہنچ گئے۔ پنجاب حکومت نے بجلی کے 100 یونٹوں پر بل معاف کرنے کا اعلان کیا مقصد 90 لاکھ آبادی کو ریلیف دینا تھا۔ یہ ریلیف صوبائی بجٹ اور ترقیاتی پروگرام کا حصہ تھا۔ پی ٹی آئی نے اسے بھی پری پول رگنگ قرار دیا الیکشن کمیشن نے اسے 19 جولائی تک روک دیا۔ نقصان کس کا ہوا سیاستدانوں کو عوام کی معاشی بہتری کے لیے سوچنا چاہیے مگر کون سوچے کپتان کا سارا دبائو اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ الیکشن سے دور رہے وہ چاہتے ہیں کہ وہ الیکشن کرائیں مگر انہیں پھر سے کندھوں پر بٹھالیں اسی لیے بار بار کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو نیوٹرل رہنے کا حکم نہیں دیا۔ راہ حق پر چلنے کا کہا ہے راہ حق کیا ہے کپتان کی پارٹی جس راہ پر چل رہی ہے وہی صراط مستقیم ہے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تمام حالات سے با خبر ہے وہ دھیمے لہجے میں الزامات کی تردید کرتی ہے۔ کارروائی سے ابھی تک گریزاں ہے سیاستدان اپنی جنگ خود لڑیں مگر ملک کو عدم استحکام کا شکار نہ ہونے دیں۔ اسی لیے سیاسی طور پر خطرے کے جراثیم نکال دیے گئے مگر خطرناک سیاستدانوں کے لیے سیاسی میدان میں کھل کھیلنے کے مواقع محدود یا مسدود نہیں کیے گئے۔ ایسا کرنا ہوتا تو فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آچکا ہوتا مگر محفوظ فیصلہ فائلوں میں محفوظ کرلیا گیا۔ کوئی ریزرو کھلاڑی تو باقی رہے تاکہ دو تہائی اکثریت لینے والا وزیر اعظم آنکھیں دکھانے لگے تو ریزرو کھلاڑی کو میدان میں اتار کر سپر اوور کھلایا جائے۔ ساری باتیں حقیقت مفروضے یا حقائق سے قریب تر ضمنی الیکشن میں ایک ہفتہ باقی انتخابی مہم زوروں پر ایک طرف کپتان دوسری طرف مریم نواز، دونوں کے جلسوں میں شرکا کی بھاری تعداد موجود کچھ دیکھنے کچھ سننے آتے ہیں کپتان میر جعفر میر صادق اور حسینؓ و یزید کا ذکر لے بیٹھتے ہیں جبکہ مریم نواز پنجاب کے لیے ن لیگ حکومت کے ترقیاتی پروگراموں کا ذکر کرتی ہیں لیکن اس دوران سابق حکومت کی کرپشن ویڈیو آڈیو ٹیپس اور دیگر بد عنوانیوں کی پٹاری بھی کھل رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے ٹیپس منظر عام پر آرہی ہیں۔ کپتان اور ان کے قریبی گرفتار اینکر پرسن عمران ریاض خان کی محفوظ ٹیپس کا ذکر خیر بھی سننے میں آرہا ہے۔ یہ ٹیپس ابھی تک سامنے نہیں آئیں ایک خاتون طیبہ گل بھی اپنی ٹیپس کا ذکر کر رہی ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنے شوہر کی گمشدگی کی شکایت نیب کے اس وقت کے چیئرمین جاوید اقبال سے کی۔ انہوں نے شرمناک ریمارکس دیے وزیر اعظم کے پورٹل پر شکایت کی انہوں نے وزیر اعظم ہائوس میں طلب کر کے ٹیپس لے لیں اور چیئرمین نیب کو بلیک میل کر کے اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کیسز بنا دیے جبکہ طیبہ گل کو ڈیڑھ ماہ تک حبس بے جا میں رکھا معاملہ تحقیقات تک پہنچ گیا۔ عثمان بزدار کے بھائیپر بھی 20 ارب کی کرپشن کا الزام ہے فارنزک شدہ ٹیپس پر تحقیقات ہونی چاہیے مگر کون کرے موجودہ حکومت مستحکم ہو تو معاشی حالات درست کرے مہنگائی 33 فیصد سے کراس کر گئی۔ کپتان مہنگائی کا سارا بوجھ اپنے سر سے اتار کر شہباز شریف کی حکومت پر ڈال رہے ہیں۔ عوام زندگی سے تنگ ہیں ان ہی حالات میں پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج آئیں گے کون جیتا کون ہارا۔ 17 جولائی کے بعد ہی مستقبل کی حکومت کا فیصلہ ہوسکے گا۔