دوشنبے: وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جو کئی دہائیوں سے 30 سے زائد لاکھ افغان پناہ گزينوں کی خدمت کر رہا ہے، ہم نے محدود وسائل کے باوجود ان کی خدمت جاری رکھی، اب اگر خدانخواستہ حالات خراب ہوتے ہیں تو ہم مزید افغان پناہ گزینوں کو رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
خیال رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے ان دنوں تاجکستان میں ہیں، وہاں سے جاری ایک اہم بیان میں انہوں نے کہا کہ میں یہاں خطے کے اہم ممالک سے افغانستان کی صورتحال پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اہم ممالک کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر پیش کرنا اور ان کی آرا سے مستفید ہونا چاہتا ہوں۔ تاجکستان کے وزیر خارجہ سے افغانستان کی صورتحال پر میری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ آج میری ازبکستان، قازقستان،اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات ہوگی جبکہ روس اور چین کے وزرائے خارجہ سے بھی میری ملاقات متوقع ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ سب خطے کے اہم ممالک ہیں اور افغانستان کی صورتحال پر نظر بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان اہم ممالک سے مشاورت کے بعد متفقہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ پاکستان اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔ افغانستان کی صورتحال بہتر ہونے کا سب کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر خوانخواستہ افغانستان کی صورتحال بگڑتی ہے تو سب متاثر ہوں گے۔ سنہری موقع ہے کہ مشاورتی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ افغانستان میں امن بگڑا تو پڑوسی زیادہ متاثر ہوں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے اپنے ملک کو دہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے 70 ہزار جانوں کیساتھ ساتھ بھاری معاشی قیمت ادا کی ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی آڑ میں ایسے عناصر بھی داخل ہو سکتے ہیں جو ہمیں نقصان پہنچائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں قیام پذیر افغان پناہ گزینوں میں اکثريت معصوم لوگوں کی ہے جو اپنے ملک واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی آڑ میں پاکستان کے دشمن داخل ہو سکتے ہیں۔ ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی، محتاط رہنا ہمارا فرض ہے۔ معصوم لوگوں کی جانیں بچانے کا ہمیں حق ہے۔ ہم انسانی ہمدردی کے تحت ان کی معاونت کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے معصوم لوگوں کا تحفظ بھی ہمیں یقینی بنانا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے افغانستان میں دیرپا امن واستحکام ہو۔ ہم پر کب تک انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں گی۔ میں ان سے یہی کہوں گا کہ ماضی کی غلطیوں کو مت دہرائیں اور مل بیٹھ کر راستہ نکالیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی اہم شخصیات کو بات چیت کی دعوت دیتے ہیں۔ افغان قائدین بیٹھیں اور بتائیں کہ ہم کیسے ان کی مدد کرسکتےہیں۔ بھارت نے افغانستان میں سپائیلر کا کردار ادا کیا وہ اب خطے کے امن میں خلل ڈال رہا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو منفی رویےسے منع کرے اور افغانستان کو امن سے رہنے دے۔