اگلے دن نسل در نسل مقبول ترین فنکار اور شخصیت دلیپ کمار صاحب کے متعلق کالم لکھا بڑی احتیاط سے مگر وہ 3500 الفاظ سے تجاوز کر گیا جس کے کم از کم تین کالم بن جاتے ہیں۔ میں نے اس میں سے کاٹ کاٹ ایک کالم کا سائز کیا۔ مجھے اخبار کے سینئر صحافی اداریہ نویس جناب زاہد رفیق نے مشورہ دیا کہ آپ اس کی تین قسطیں کر لیں میں نے ان سے کہا کہ اگر قسطیں لکھوں گا تو یہ کئی سال لے جائیں گی اور ویسے بھی بات تو اس فن اور شخصیت کی کرنا ہے جو دلیپ کمار کو دوام دے گیا، ان کی سوانح عمری تو اخبارات میں چھپ چکی تھی مگر ان کی اداکاری اور فن کا کہیں ذکر نہ تھا۔ اس کالم کے بعد مجھے اندرون و بیرون ملک سے درجنوں فون آئے جن میں دانشور اور دلنواز شخصیات شامل ہیں۔ ہر شخص دلیپ کمار صاحب کو عقیدت کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی کسی نہ کسی فلم کا کوئی نہ کوئی منظر اورمکالمہ ان کے لہجے میں سنا رہا تھا۔ ان کی کاپی کر رہا تھا۔ بہرحال بات ہو رہی تھی کہ اگر الفاظ زیادہ ہیں تو قسطیں کر لیں میں نے ان سے کہا کہ قسطیں تو آج کل لوگ یوٹیلیٹی بلز، مکان کے کرائے، لیے گئے ادھار واپس کرنے کی کرا رہے ہیں اور اس معاشرت میں جہاں کے حکمران طبقے اور سٹیک ہولڈرز دلیپ کمار صاحب سے بھی بڑے اداکار ہیں گو کہ ادب، انسانیت، انسان دوستی، حساسیت، جذباتیت، علمیت، وارفتگی، دلنوازی، دل پذیری ناپید ہے لیکن جہاں تک اداکاری کا تعلق ہے تو یہ بہت بڑے اداکار ہیں۔ فلم میکنگ اور کہانی نویسی میں یا ہدایت کاری میں ایک چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ سین کی ڈیمانڈ کیا ہے یعنی سکرپٹ، کہانی اور عوام اگلا کیا منظر دیکھنا چاہتے ہیں اس پر پورا اترنے والی فلم سپر ہٹ ہوا کرتی ہے ہمارے ہاں معاشرت پر ناجائز قابض سین کی ڈیمانڈ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک کلپ ہے جس میں فواد چوہدری، بابر اعوان، شاہ محمود قریشی، افضل چن، گوندل، فردوس عاشق اعوان، صمصام بخاری پیپلزپارٹی ہی نہیں جناب زرداری کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اور دوسرے منظر میں ان کی مخالفت او رعمران خان کو نجات دہندہ اور ویژنری رہنما کہہ رہے ہیں۔ شیخ رشید نوازشر یف کے لیے قربان ہو رہے ہیں اور دوسرے مناظر میں تقریباً گالیاں ہی دے رہا۔شیخ رشید جس نے کہا تھا کہ اگر ہم امریکہ کی بات نہ مانتے تو وہ ہمارا آملیٹ بنا دیتا۔ آج کس کے بل بوتے پر اپنے اس مؤقف کے خلاف ہیں۔ افغان مسئلے کا پہلا سبب تو روس تھا۔ جس کی واپسی کے بعد افغانستان بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی پناہ ”حب“ بن گیا۔ دوسرا ذمہ دار امریکہ ہے۔ دونوں بار ہم نے ہراول دستے کا کام کیا اور دوسری بار جس نے امریکہ کا ساتھ دیا اس کو درجنوں بار وردی میں صدر منتخب کرنے کی بات کرنے والے ”پنجاب کے ڈاکو“ پنجاب اسمبلی کے کسٹوڈین ہو گئے،جو آمریت میں پھلے پھولے ان کو جمہوریت زہر قاتل ہی لگے گی۔ ”چپڑاسی کے قابل نہ تھے وزیر بن گئے“ زرداری گیلانی اور مشرف کابینہ کے چہرے موجودہ حکومت کے سرخیل ہو گئے۔ کچھ نئے امپورٹڈ چہرے لائے گئے جن کا ماضی اب بن رہا ہے یہ دراصل سب سین کی ڈیمانڈ ہے سکرپٹ کی مانگ ہے۔ یہ بچے جمورے کبوتر رہیں گے کبھی شاہین نہیں ہو سکتے۔ دیکھا گیا ہے کہ مین سٹریم میڈیا پر کئی سال عوام کو شعوری طور پر یرغمال بنائے رکھنے والے اب سوشل میڈیا یو ٹیوب پر عوام کے شعور کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
حکومت کیسے جائے گی، مارشل لاء نہیں آ سکتا، عمران خان اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ اگر وقت سے پہلے انتخاب ہو جائیں عوام کو دیئے گئے قرضے، سہولیات کے اعلانات، منتشر حزب مخالف عمران کو فائدہ دے گی۔ نہ جانے یہ تجزیہ کار مریخ پہ رہتے ہیں۔ یوٹیلیٹی بلز، اشیائے خورنی، ضروریات زندگی، بنیادی ضروریات زندگی جو حسرتوں میں بدل گئیں۔ یہ سب سانحے کس کے کھاتے میں جائیں گے۔ ان ارسطوؤں کو کون سمجھائے کہ عوام کے سامنے دنیا کی کوئی قوت آج تک ٹھہر نہ پائی۔ یہ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ یہ ”تجزیہ کار“ کوئی تقدیر تو نہیں لکھتے تجزیہ ہی لکھتے ہیں اور اس میں عوام کی نہیں ان کے ماسٹرز کی آواز اور الفاظ ہوتے ہیں۔ کوئی محلے اور عوام میں رہنے کا دعویدار ہے۔ کوئی اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے جانبداری کی حدیں عبور کر رہا ہے۔
نواز شریف نا اہل ہو چکے، شہباز شریف،مریم نواز، بلاول بھٹو حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن بھی نا اہل اور بین ہو جائیں۔ بھلے ساری اپویشن بین ہوجائے مگر عوام تو بین اور نا اہل نہیں ہو سکتے۔ جن کی زندگی کو موت سے مہنگا کر دیا گیا۔ اور عزت ذلت میں بدل دی گئی۔ ذات برادری، فرقہ واریت، لسانی
علاقائی سیاست جس کو گریٹ بھٹو نے دفن کر کے رکھ دیا ضیا نے پھر سے بھرپور قوت کے ساتھ اور کرپشن کو بطور پالیسی رائج کر کے زندہ کیا جو چلتے لمحے میں خوب ترقی کر چکی ہے۔
لوگوں کو گروہ در گروہ اور نہ جانے کتنے ان گنت حصوں میں تقسیم کر دیا گیا پھر قوم کی بات کرتے ہیں؟ افغان روس جنگ، افغان امریکہ جنگ سے ابھی نکلے نہیں تو امریکہ چائنہ معاشی جنگ اپنی زمین پر شروع کر دی، یہ جانتے ہوئے کہ انتہائی گھٹیا اور مکار ہمسایہ بدترین دشمن ہے۔ بھارت میں کشمیر نہیں بہت کچھ آزاد ہو گا۔ کشمیری جب حقیقت جان گئے کہ اپنی جنگ آپ لڑنا ہے تو پھر نہیں ہو سکتا کہ کوئی قوم اور تحریک جو آزادی کے لیے چلے جس میں خون بہے اس کو منزل نہ ملے لیکن اس کا کیا کریں جو وطن عزیز میں ایک سے بڑھ کر ایک اداکار ہے اور سین کی ڈیمانڈ پر پورا اترتا ہے اور ان کے ختم ہونے اور کم ہونے کی کوئی صورت گری نہیں۔موجودہ حکومت وعدوں، نعروں، دعووں اور الزامات کے زور پر مسلط کی گئی۔ اب یہ اعلانات ”پروگرام“ گا گے گی کے بعد ہوتا، ہوتے، ہوتی کے ساتھ جائے گی۔ مرتضیٰ سولنگی اور رضا رومی صاحبان کے پروگرام میں کچھ تجزیہ کار حکومت گرانے، تبدیل کرنے، مارشل لاء نہ لگنے اور عمران کے ووٹ بنک کی بات کر تے ہیں۔ ان سے پوچھیں پیپلزپارٹی سے بڑھ کر کس کا ووٹ بنک تھا۔ حکومت کی چھٹی حکومت کی تعمیر ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلط کرنے والے لانے والے جب ارادہ فرما لیں گے تو کر لیں گے۔ جلسہ کے اختتام پر محترمہ کا حادثہ، پانامہ میں سے اقامہ برآمد ہو سکتا ہے تو مالم جبہ ممنوعہ منی فنڈنگ اور چار سو پھیلی بدعنوانی، بدانتظامی کسی بھی وقت پانامہ میں بدل سکتی ہے۔ سین کی ڈیمانڈ پر پورا اترنے والے کسی بھی وقت عدم اعتماد لا سکتے ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے جبکہ گرانے کے لیے صرف ایک منظر کی ضرورت ہے اور یہی تجزیہ کار اس منظر کے حامی پائے جائیں گے۔ یہ بھی سین کی ڈیمانڈ پر پورا اترتے ہیں لیکن اب کی بار سین میں عوام کی حقیقی رائے کا احترام نہ کیا گیا تو قدرت کا قانون ضرور حرکت میں آئے گا۔