نہ تو وہ بیری (جنڈ) کا نیچے سے کھوکھلے تنے اور دور دور تک پھیلی شاخوں اور ڈالوں (ٹہنوں) والا بڑا سا درخت رہا ہے کہ اسے کٹے ہوئے بھی ساٹھ پینسٹھ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ نہ ہی وہ پرانا گھر یا حویلی رہی ہے جس کے بڑے کمرے (صُفے) کے عین سامنے جنوب کی سمت میں بیس، پچیس گز کے فاصلے پر صحن کی آخری پٹی جو سات آٹھ فٹ چوڑی اور بڑے صحن کی سطح سے ایک آدھ فٹ نیچے تھی میں بیری کا یہ پرانا اور بوڑھا درخت نہ جانے کب سے، شاید ایک آدھ صدی قبل سے کھڑا تھا۔ بیری کا درخت بہت عرصہ پہلے کٹ گیا تو پرانا گھر جو میرا آبائی گھر تھا اور جس میں میرا بچپن، لڑکپن، جوانی اورادھیڑ عمر تک زندگی کے کم و بیش چونسٹھ پینسٹھ برس گزرے وہ بھی بارہ چودہ سال قبل مسمار کر دیا گیا اور اس کی جگہ میرے چھوٹے عزیز بھائی پروفیسر امجد حسین ملک نے ایک نیا کشادہ اور خوبصورت گھر تعمیر کر لیا ہے۔ آبائی گھر اور اُس کا پرانا بوڑھا بیری کا درخت جو اب موجود نہیں ہیں، کبھی بھی میرے ذہن کے نہاں خانے سے محو نہیں ہوئے ہیں کہ ان سے وابستہ باتوں اور یادوں کا تعلق میرے کنبے، میرے گھرانے، میرے مرحوم والدین، میری اہلیہ اور میرے بچوں، میرے عزیز اور شفیق بھائی بہنوں اور میرے بچپن، لڑکپن، جوانی اوراُدھیڑ عمر کے ماہ و سال سے ہے۔ یہ یادیں اور باتیں رہ رہ کر میرے ذہن میں اُبھرتی ہی نہیں رہتی ہیں بلکہ کچھ ایسے ستاتی بھی ہیں کہ پیرانہ سالی کی اس عمر کے باوجود ان کی وجہ سے کبھی کبھی آنکھوں کی پلکوں میں آنسوؤں کے قطرے بھی موتیوں کی طرح جھلملانے لگتے ہیں۔
اگلے دن مجھے اپنے اس پرانے گھر اور اس میں لگے بیری کے پرانے اور بوڑھے درخت کا خیال اس طرح آیا کہ اپنے تعلیمی ادارے، جس سے میں پچھلے تقریباً ڈیڑھ دو عشروں سے وابستہ ہوں میں اپنے معمول کے مطابق کلاسز کے ویزٹ پر گیا تو وہاں آٹھویں جماعت کے ایک گرلز سیکشن میں بیالوجی کی ٹیچر جو ماشاء اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی قابل اور تجربہ کار ہیں اپنے پیریڈ میں طا لبات کو ملیریا بخار کے حوالے سے پڑھاتے ہوئے انہیں ملیریا بخار کو پھیلانے والے مچھر، اس کے خلاف حفاظتی تدابیر اور اس بخار کے علاج کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ ٹیچر مشرق بعید کے جنگلوں میں اُگنے والے ”سینکونا اور کوینا“ پودوں اور ان سے بننے والی ”کونین“ نامی میڈیسن کے بارے میں بتا رہی تھیں تو معاً میرا خیال اپنے پرانے آبائی گھر اور اس میں لگے بوڑھے پرانے بیری کے درخت جس کا شروع میں حوالہ آیا ہے کی طرف چلا گیا کہ کیسے ہمارے گاؤں کے لوگ بیری کے اس پرانے درخت کے اڑھائی پتے کھا کر اپنے ”تیجے“ (تیسرے دن) کے بخار یعنی ملیریا کا علاج کیا کرتے تھے۔
میرے بچپن کے دنوں میں دیہات میں ملیریا کا بخار جسے ہمارے ہاں ”تیجے“ یا ایک دن چھوڑ کر اگلے دن چڑھنے والا بخار کہا جا تا تھا کی وبا عام تھی۔ ہسپتال، ڈسپنسریاں اور بنیادی اور دیہی مراکز صحت کم تھے۔ میں اپنے گاؤں سے اڑھائی تین کلومیٹرکے فاصلے پر ادہوال نام کے قصبے کے ہائی سکول میں پڑھتا تھا وہاں ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت ایک چھوٹی سی ڈسپنسری تھی جس میں کوئی ڈاکٹر تو کم ہی تعینات ہوتا تھا البتہ ایک کمپوڈر اور ڈسپنسری کے دوسرے ملازم ضرور موجود رہتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ادہوال گاؤں کی اس ڈسپنسری میں چوہدری حاکم خان بڑا عرصہ کمپونڈر کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ان کا تعلق چھ سات کلومیٹر دور گاؤں سے تھا۔ ان کا بیٹا چوہدری بشیر احمد ہائی سکول میں میرا کلاس فیلو اور میرا بہت اچھا دوست بھی تھا۔ چوہدری حاکم ڈسپنسری کے بڑے کمرے میں ایک طرف بیٹھتے تھے تو دوسری طرف ایک بڑی میز پڑی ہوتی تھی جس پر کچھ بڑی بوتلیں رکھی ہوتی تھیں جن پر موٹے ہندسوں میں نمبر لگے ہوتے تھے۔ ان بوتلوں میں گھولی ہوئی دوائیوں کے محلول بھرے ہوتے تھے۔ کسی کو پیٹ کا درد، بد ہضمی، کھانسی، بخار، ملیریا یا چھوٹا موٹا زخم لگا ہوتا اور وہ دوائی لینے کے لیے ڈسپنسری میں جاتا تو کمپوڈر چوہدری حاکم خان اس کا نام رجسٹرڈ میں لکھنے کے بعد وہیں سے ڈسپنسری کے ملازم شاہ صاحب کو آواز دیتے کہ اس کو فلاں نمبر کی بوتل میں سے دوائی کی ایک خوراک پلا دو۔ شاہ صاحب ایک چھوٹے سے شیشے کے گلاس (بیکر) جس پر نشان لگے ہوتے تھے، مطلوبہ دوائی کی خوراک جو انتہائی کڑوی، کسیلی اور بدمزا ہوتی تھی ڈال کر مریض کو دے دیاکرتے تھے۔ مریض کے پاس اگر چھوٹی موٹی بوتل ہوتی تو اسے دوائی کی کچھ مزید خوراکیں دے دی جاتیں ورنہ ایک خوراک ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔ گولیاں یا کیپسول دینے کا کم ہی رواج تھا البتہ ملیریا بخار کے لیے ”کونین“ کی انتہائی کڑوی گولیاں مل جاتی تھیں۔ کھانسی اور پیٹ کے درد کے شربت نمکین اور رنگت میں کچھ گلابی مائل ہوتے تھے۔ زخم کسی طرح کے بھی ہوتے، ان پر روئی میں بگھو کر پر ٹینکچرآیوڈین لگا دی جاتی۔ یہ آج سے تقریباً چھ ساڑھے چھ عشرے قبل دیہات میں بیماریوں کے علاج کا عام انداز تھا تو کچھ دم درود اور ٹونے ٹوٹکوں سے بھی علاج کیا جاتا تھا۔ ہمارے گاؤں میں ہمارے آبائی گھر میں کھڑا بیری کا پرانا اور بوڑھا درخت بھی ”تیجے“ (ملیریا) کے بخار کے مریضوں کے لیے شفا کا باعث بھی بنا ہوا تھا۔ کہ بخار میں مبتلا اس درخت کے اڑھائی پتے کھاتے تو اکثر ان کا بخار ختم ہو جاتا تھا۔ یہ کیسے تھا اس کی تفصیل کچھ اُوپر آ چکی ہے اور مزید تفصیل سے قبل اس درخت کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں اس درخت کی پرانی سوکھی شاخیں اکثر ہمارے صحن میں گرتی رہتی تھیں وہاں اس پر اتنے بیر لگتے تھے کہ مارچ اپریل میں بیر پکنے کے موسم میں تیز ہوائیں چلنے پر بیروں کے ڈھیر ہمارے صحن میں لگ جاتے تھے اور ہمارے رشتہ دار اور ہمسائے وغیرہ جھولیاں بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
بیری کے اس پرانے درخت کے خالی تنے میں گاہے گاہے جمعرات کو سرسوں یا تارا میرا تیل والے مٹی کے دیئے بھی جلائے جاتے تھے۔ اس کے بارے میں یہ روایت مشہور تھی کہ یہاں سو سال یا کم و بیش عرصہ قبل ہمارے دادا پردادا کے زمانے میں ”بوئی بودلہ“ یا اس سے ملتے جلتے نام سے معروف کسی صاحبِ کرامات بزرگ کا ڈیرا ہوا کرتا تھا۔ ان بزرگ کی کرامات یا کسی اور وجہ سے بیری کے اس درخت کے پتوں میں یہ تاثیر تھی کہ ”تیجے“ (تیسرے) یعنی ایک دن چھوڑ کر چڑھنے والے ملیریا بخار کی صورت میں ان پتوں کو کھانے سے بخار میں افاقہ ہو جاتا تھا۔ بزرگ کی کرامات کے بارے میں روایت کس حد تک درست تھی یا نہیں اس سے قطع نظر بہرکیف یہ صورت ضرورتھی کہ لوگ بخار کی حالت میں بیری کے اڑھائی پتے کھاتے تھے اور انہیں ان پتوں کی وجہ سے یا کسی اور بنا پر شفا بھی مل جاتی تھی اور وہ پھر جمعرات کو آ کر درخت کے خالی تنے میں مٹی کے دیئے جلا کر اپنی ”منت“ بھی پوری کیا کرتے تھے۔ دینی تعلیمات اور صحیح عقائد کی روشنی میں درخت کی اس طرح کی کوئی کرامت سمجھنا بلا شبہ شرک کی ایک طرح کی صورت تھی لیکن جب جہالت اور دین کی صحیح تعلیمات اور راست عقائد سے دوری رچی بسی ہوئی تھی تو پھر صحیح عقائد اور شرک سے دوری کا شعور کیسے پیدا ہو سکتا تھا۔ یقیناً یہ ایک انتہائی مشکل امر تھا کہ اللہ کریم نے خصوصی کرم فرمایا اور ہمارے گاؤں کے کچھ گھرانوں میں جن میں بفضل تعالیٰ ہمارا گھرانا بھی شامل تھا، شرک اور بدعات سے دوری اور صحیح دینی عقائد کا شعور اُجاگر ہوا۔ میرے محترم والدین لالہ جی مرحوم و مغفور اور بے جی مرحومہ و مغفورہ جو چٹے ان پڑھ اور اپنے شیعہ سید پیر گھرانے سے گہری عقیدت و وابستگی رکھتے تھے ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمارے بیری کے اس درخت سے لوگوں کی ایک طرح کی عقیدت سے شرک کا پہلو نکلتا ہے لہٰذا اسے کٹوا دینا چاہیے۔ چنانچہ جیسے پہلے کہا گیا ہے میں جب نویں یا دسویں جماعت میں پڑھتا تھا تو بیری کے اس درخت کو کٹوا دیا گیا۔ ہمارے گھرانے سمیت گاؤں کے اور گھرانوں میں شرک اور بدعات سے دوری اور صحیح اور دینی عقائد پر کاربند ہونے کا رجحان کیسے پیدا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک پوری داستان ہے۔ جس کا تذکرہ ان شاء اللہ اگلے کالم میں ہو گا۔