کرونا وبا سے پہلے بھی ہمارے ملک میں صحت کی سہولیات ناپید ہیں اور لوگ اپنے پیاروں کا علاج کرانے کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے تھے۔ سر کاری ہسپتالوں میں جہاں پہلے ہی بڑے ڈاکٹروں نے مریضوں کو چھوٹے ڈاکٹروں کے حوالے کر کے اپنی جان چھڑائی ہوئی تھی وہاں رہی سہی کسر کروناکی وبا کے دنوں میں ختم ہو گئی۔ڈاکٹرز سر کاری ہسپتالوں میں آئے مریضوں کے لواحقین کو زبردستی اس پرائیویٹ ہسپتال میں لے جانے کا کہتے جہاں وہ پرائیویٹ پریکٹس کرتے تھے اور یوں مجبوراََ اپنے پیاروں کو موت کی وادی کا مسافر بننے سے بچانے کے لئے لواحقین قرضہ لے کر یا اپنی قیمتی اشیا فروخت کرکے مریض کا علاج کروانے پر مجبور تھے۔ ابھی حالیہ دنوں میں مجھے پھر ایک ایسے ہی واقعے کا معلوم ہوا کہ لاہور کے ایک بڑے سر کاری ہسپتال کے ایک میڈیکل یونٹ کے انچارچ پروفیسر صاحب، یہاں آنے والے مریضوں کو اول تو لفٹ نہیں کراتے اور جب کوئی مریض ان کی منت سماجت کرتا ہے تو وہ بھی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں جس کا اپر پورشن موصوف نے ساڑھے چار لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر حاصل کیا ہوا ہے، وہاں آنے کا کہہ دیتے ہیں اور یوں روزانہ کی بنیادوں پر تیس سے چالیس ہزار روپے مریض کے لواحقین ادا کر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
قارئین! یہ صرف ایک پروفیسر کی کہانی نہیں بلکہ کئی ایسے بڑے بڑے ڈاکٹرز ہیں جو سر کاری ہسپتالوں سے لاکھوں تنخواہ وصول کرتے ہیں اور عیاشیاں کرتے ہیں لیکن یہاں صرف چائے پینے، گپ شپ لگانے اور مریضوں کو اپنے پرائیویٹ ہسپتالوں میں شفٹ کر کے پیسہ کمانے کے علاوہ مزید ان کا سر کاری ہسپتال میں کوئی کام نہیں ہوتا۔یہی وہ وجہ ہے کہ حکومتوں کے بڑے دعووں
کے باوجود بھی سر کاری ہسپتالوں میں کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ یہاں بڑے بڑے مافیاز ہیں جو اپنے آقاؤں کو خوش کر نے کے لئے خود بھی فنڈز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور اپنے آقاؤں کے پیٹ بھی بھر رہے ہیں۔ ہمارے ہیلتھ رپورٹرز روزانہ ہی کسی سر کاری ہسپتال میں ہونے والی کرپشن کی اندرونی کہانیاں منظر عام پر لاتے ہیں لیکن آقاؤں کی ملی بھگت سے فائل پھر بند کر دی جاتی ہے اور اس کا سب سے زیادہ جو اثر ہوتا ہے وہ مریض اور اس کے لواحقین ہیں جو علاج کے نام پر کرب و ابتلا سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اتھارٹی اسپیشل برانچ کے ذریعے سر کاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی خفیہ انکوائری کروائے تو مجھے یقین ہے کہ پانامہ سے بڑا معاملہ سامنے آسکتا ہے۔پیسے کے دلدادہ انہی پروفیسرز اور ڈاکٹرز کو دیکھتے ہوئے ہسپتال کا پیرا میڈیکل سٹاف بھی کرپشن کی دوڑ میں پیچھے نہ رہا ہے۔ آئے روز ہسپتالوں میں ادویات کی خرد برد کے بڑے بڑے سیکنڈل سامنے آرہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک مزید ایسا واقعہ سامنے آیا ہے کہ سروسز ہسپتال میں من پسند ٹھیکیدار کو نوازنے کے لئے ادویات کا بیچ نمبر تبدیل کر دیا اور ایکسپائر دواء مریضوں کو کھلا کر ان کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا گیا۔ یہ صرف ایک ہسپتال کی کہانی نہیں بلکہ پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں یہی حال ہے اور میں بالخصوص وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے ہسپتالوں کے اچانک دورے شروع کئے ہیں، اسی طرح ہسپتالوں میں کی جانے والی کروڑوں کی کرپشن کا بھی حساب لیا جائے۔
قارئین محترم! لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ایسے ڈاکٹروں کو میں قریبی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے کرونا کی اس جنگ میں سینہ سپر ہو کر لوگوں کا علاج کیا اور اس مسیحائی پیشے کو”ڈکیت پیشہ“بنا نے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ کرونا ایڈوائزری کمیٹی کے انچارج پروفیسر محمود شوکت،کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے درویش صفت وائس چانسلر جناب پروفیسر خالد مسعود گوندل اور ان کی پوری ٹیم، ڈاکٹر آصف محمود جاہ، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے چیئرمین جناب پروفیسر ثاقب اور ان کی پوری ٹیم نے کرونا کے خوفناک ایام میں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ جاری رکھیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جہاں مسیحائی کے شعبے میں ڈکیت نما لوگ، مریضوں کے لواحقین پر ظلم کے پہاڑ توڑ کے اپنے بنک بیلنس بھرنے میں مصروف ہیں، ان حقیقی مسیحاؤں کی وجہ سے شعبہ طب کو اب بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کرونا کے ایام میں جب میری بڑی بہن اور بہنوئی کو اس بیماری کا سامنا کر نا پڑا اور بیماری کی شدت کی وجہ سے مجھے اور تمام گھر والوں کو جس کوفت کا سامنا کرنا پڑا، کئی مہینے گزر جانے کے باوجود ہم اس ذہنی کیفیت سے نہ نکل پائے۔لیکن زندگی کے ان مشکل ترین ایام میں میو ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر رضوان جیسے مسیحاکی وجہ سے معاملات بڑے احسن انداز میں طے پا گئے۔ لیکن ان تمام مسیحاؤں کی مسیحائی اس وقت ماند پڑ جاتی ہے جب مسیحائی کا روپ دھارے ڈکیت نما ڈاکٹرز، صرف اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر مریضوں کو ذلیل و خوار کر نے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور ہزاروں فیس وصول کر نے کے باوجود بھی ان کے پیٹ کی جہنم ہے جو بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ایسے ڈکیتوں کا احتساب وقت کی اہم ضرورت ہے اور حکام بالا فی الفور اس پر نوٹس لیتے ہوئے مسیحائی کے شعبے کو بد نام کرنے والے ان ڈکیتوں کو بے نقاب کرنا چاہئے تاکہ مسیحائی کا شعبہ قابل عزت و احترام ہی رہے۔