اوٹاوا: برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کارل رودریگز نوکری سے مستعفی ہونے کے بعد اپنے گھر کے تہہ خانے سے کام شروع کیا اور چند ہی دنوں میں ایک ارب ڈالر کی کمپنی بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
کارل رودریگز کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے نوکری سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے اسے ایک احمقانہ فیصلہ قرار دیا تھا۔ ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ میں پاگل ہو چکا ہوں۔ وہ یہ کہتے تھے اس لڑکے کو ہو کیا گیا ہے۔
پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کارل رودریگز نے جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کامیابی کی منازل طے کر رہے تھے ایک دن اچانک یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب دوسروں کے لیے کام کرنے کی بجائے اپنا کام کریں گے۔ اس وقت انھیں درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہی بات ان کے اہلخانہ کے لیے بھی باعثِ پریشانی تھی لیکن کارل کا عزم بلند تھا۔
2001 میں انھوں نے کینیڈا کے شہر مسیساگا میں واقع اپنے مکان کے تہہ خانے کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور کچھ نیا کرنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ جب میں اپنی پسند کا کام کر رہا ہوں تو اس کا پھل کیسا ہو سکتا ہے۔ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کروں گا بس سوچا ایک بار کوشش کر کے تو دیکھتے ہیں۔ ایک مہینے کی سخت محنتِ کے بعد رودریگز کے دماغ میں ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کرنے کا خاکہ سامنے آیا جو صارفین کو لیپ ٹاپ کے ذریعے ان کے موبائل کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکے۔
انھوں نے اپنی کمپنی کا نام سوٹی رکھا اور جب ایک سال کی محنت اور انتظار کے بعد ایک دن رودریگز کو برطانیہ کی بڑی سپر مارکیٹس میں شامل ایک گروپ کی کال آئی اور پھر رودریگز کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہ کمپنی ان کا سافٹ ویئر صارفین کو فروخت نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ اسے اپنے نظام میں شامل کرنا چاہتی تھی تاکہ اس کا عملہ بہتر طریقے سے رابطے میں رہ سکے اور معلومات کا تبادلہ کر سکے۔ 55 سالہ رودریگز اس فون کال کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب انھیں برطانوی فرم نے کال کی تو وہ اپنے تہہ خانے میں اکیلے موجود تھے۔
اس فرم نے پوچھا کہ وہ سیلز کے شعبے کے کسی آدمی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ رودریگز نے چند لمحے کے وقفے کے بعد آواز بدل کر فون کال ریسیو کی اور اس طرح انھیں 20 ہزار یونٹس کی تیاری کا پہلا بڑا آرڈر ملا۔ اس کے بعد ’سوٹی‘ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس وقت اس فرم کا سالانہ ریونیو آٹھ کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے باوجود آج تک رودریگز نے اپنی کمپنی میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کو شامل نہیں کیا۔ ان کی کمپنی پر مکمل طور پر ان کا اور ان کی بیوی کا مالکانہ حق ہے۔ 2006 میں انھیں مائیکرو سافٹ کی جانب سے بھی کمپنی خریدنے کی پیشکش کی گئی لیکن رودریگز نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ اپنی کمپنی کو ان جیسا ہی بڑا بنانا چاہتے ہیں۔
رودریگز کی پیدائش پاکستان میں ایک ایسے رومن کیتھولک خاندان میں ہوئی تھی جس کی جڑیں گوا کی پرتگالی کالونی سے ملتی ہیں۔ جب وہ 11 برس کے تھے تو ان کا خاندان کینیڈا چلا گیا۔ پاکستان چھوڑنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کارل نے کہا کہ یہ فیصلہ ان کی والدہ کا تھا جو 1970 کی دہائی میں ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال سے پریشان تھیں۔
کارل نے ٹورنٹو یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس اور ریاضی کے مضامین میں ڈگری حاصل کی اور پھر 2001 تک بطور کنسلٹنٹ کام کرتے رہے یہاں تک کہ ’سوٹی‘ وجود میں آئی۔ آج ان کی کمپنی کی مالیت کا اندازہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔
دنیا بھر میں اس کے 17 ہزار کاروباری صارفین ہیں اور دنیا کے 22 ممالک میں اس کے دفاتر میں سات سو ملازمین کام کرتے ہیں۔ کارل اب اپنے اس تہہ خانے سے کام نہیں کرتے۔ ان کی کمپنی کا صدر دفتر تہہ خانے سے نکل کر مسیساگا کی دو بڑی عمارتوں میں منتقل ہو گیا ہے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں