اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل کی سماعت ہوئی، جس میں جسٹس جمال مندوخیل نے آرمی ایکٹ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس میں موجود جرائم کا اطلاق صرف فوجی افسران پر ہی ہوگا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اور وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ اس دوران، عدالت نے مختلف سوالات اٹھائے کہ سویلینز کا ملٹری عدالتوں میں ٹرائل ممکن ہے یا نہیں، اور کیا آئین کے تحت فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی توثیق کی جا سکتی ہے۔
خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت کیا جا سکتا ہے، تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے اس پر سوال کیا کہ یہ سیکشن فوجیوں کو فرائض سے روکے جانے کے حوالے سے ہے۔ ججز نے آرمی ایکٹ میں کی جانے والی حالیہ ترامیم اور ان کے 9 مئی کے واقعات پر اثرات کا بھی جائزہ لیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کیا بعد میں کی گئی ترامیم کو ماضی کے واقعات پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔
سماعت کے دوران، عدالت نے آئین کی بالادستی اور فوجی عدالتوں کی موجودگی کے آئینی جواز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس تمام معاملے میں عدالت نے فیصلہ کل تک محفوظ کرتے ہوئے وزارت دفاع کے وکیل کو مزید دلائل دینے کا وقت دیا۔