اسلام آباد: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان کےمعاملے پر پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ میں براہ راست سماعت کا آغاز ہو گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کر رہا ہے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل سینٹر علی ظفر، حامد خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے اور اگر انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا جس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر دلائل کے لیے روسٹرم پر آگئے، انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لیے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔ بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواسب دیا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا۔ آرٹیکل 17 دو طرح سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج نہیں کیا، اگر انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج ہوتے بھی ہیں تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ میرے 5 اہم نکات ہیں جن پر میں دلائل دوں گا، ایک یہ کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، دوسرا پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے،تیسرا الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لیے عملدرآمد کیا،۔
انہوں ے کہا میری چوتھااہم نکتہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی جبکہ پنویں معروض ہے کہ 2 دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔
چیگ جسٹس قضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر کارروائی کی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے،اگر ایوب خان کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتحال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سے او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ کسے منتخب کر دیا تو کیا ہوگا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا؟ کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا، اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے؟ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آج کل ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیاکہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے، سابق سربراہ نے نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نےکہا کہ سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہوں گے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایت دے رہے ہیں؟ برطانیہ میں جتنے وزرائے اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت سے ان کو مخالفت ہوئی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈیول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، اگر پی ٹی آئی کے وکلا کو نہ سنتے تو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کل ہی معطل کر دیتے۔ عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں، پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے تحریک انصاف دستاویزات کے معاملے میں کافی کمزور ہے، ہم جو دستاویزات مانگتے ہیں آپ کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات میں اور کوئی پینل آیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ہی پینل تھا وہ جیت گیا، پینل میں 15 لوگ تھے جو منتخب ہوئے۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے پوچھا کہ کیا نیازاللہ نیازی پی ٹی آئی ممبر ہیں جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی وہ ہمارے ممبر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کدھر ہیں، پارٹی میں نئےنئے لوگوں کی شمولیت شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ جس پر نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس سے کہا کہ ایسے آپ میری تذلیل کر رہے ہیں، میں 3 سال تک آپ کے سامنے پیش ہوتا رہا، مجھے علم ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
اِس پر چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے کہا کہ کیا ہم انہیں نوٹس جاری کریں؟ اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، تاہم بیرسٹر علی ظفر نے نیاز اللہ نیازی کے رویے پر معافی مانگ لی۔
دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کےساتھ ہے، الیکشن کمیشن نے آئی جی پولیس کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کے لیے خط لکھا۔ ہم چاہتے تھے کہ اسلام آباد میں الیکشن ہوں پر کوئی ہمیں جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا۔
علی ظفر نے مزید کہا کہ ہم نے میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہمی کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے ان کی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، اکبر ایس بابر جب آئے تو وقت ختم ہوچکا تھا، اکبر ایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، اکبر ایس بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر ظفر علی سے پوچھا کہ آپ کے آئین میں لکھا ہے کہخفیہ ووٹنگ کی جائے، انہوں نے کہا کہ پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہو ہی ووٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلامقابلہ تصور ہوگا۔
بیرسٹر علی ظفر نے مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا، انہوں نے کہا کہ ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے۔جسٹس واضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو آج جرمانہ کر کےپارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے لیکن انہیں انتخابی نشان بھی الاٹ کر دیا گیا ہے۔