حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا نام عبداللہ، لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ یہ دونوں القاب جناب نبی کریمؐ نے عطا فرمائے۔آپؓکا نسب آٹھویں پشت پر رسول کریمؐ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ نہایت رقیق القلب اور بردبار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریمؐ کے پہلے صحابی، پہلے امتی، پہلے خلیفہ، رازدار اور آپؐ کے سسر بھی تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ قریش کے ایک بااثر اور ممتاز فرد تھے۔ آپؓ کی اس قدر عزت کی جاتی تھی کہ دیت و تاوان کے تنازعات کا فیصلہ آپؓ ہی سے کرایا جاتا تھا۔ جب آپؓ کسی کی ضمانت دے دیتے تو اس پر اعتبار کیا جاتا۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے بغیر کوئی دلیل یا معجزہ مانگے سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان ہونے کا اعلان کیا،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر کے لقب سے نوازا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعزازحاصل ہے کہ دورنبوت ہی میں ان کے خاندان کی چار نسلیں اسلام سے مشرف ہوئیں، والد، والدہ، خود، اولاد، پوتے نواسے، سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا۔
یہ وہ وقت تھا کہ دعوت اسلام کا زبان پر لانا ایسے تھا جیسے جلتا ہوا انگارہ ہاتھ میں لینا۔ مگر آپؓ نے اس دور میں بھی دامن نبوتؐ نہ چھوڑا اور نبی کریمؐ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اپنایا اور ایسا اپنایا کہ اس راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی اور اس راستے میں ہر طرح کی تکالیف، مصائب اور آلام خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ اشراف قریش کی ایک جماعت سیدنا ابوبکرؓ کی تبلیغ سے ہی حلقہ بہ گوش اسلام ہوئی۔ عشرہ مبشرہ میں سے سیدنا عثمان، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین آپؓ کے وعظ و ترغیب سے مسلمان ہوئے۔
قلم کاروان کی ادبی نشست میں ”پیکرصدق و صفا؛خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق“کے عنوان سے سیدعنایت اللہ جان نے اپنے مقالہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عشق رسول ؐ پر مبنی واقعات بیان کئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکرصدیق ؓکی پیدائش،ان کے خواب اوربچپن و لڑکپن سے ہی آپؐکے ساتھ گہری دوستی کابھی ذکرکیا۔
آپؓ نے اسلام کے ابتدائی دور میں انتہائی سخت حالات کو بڑی جاں فشانی سے برداشت کیا اور اپنا سب کچھ اپنے آقا ؐ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ نبی کریمؐ کے سفر و حضر، قیام و طعام، جہاد و حج حتی کہ قبر مبارک کے ساتھی بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ ہر غزوہ میں نبی کریمؐ کے قدم بہ قدم رہے۔
آپؓ کی رفعت شان کا اس سے بھی اندازہ لگائیے کہ خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر ؓ! تم غار میں بھی میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر بھی میرے رفیق ہو۔ بخاری شریف میں حضرت ابو الدردا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم لوگوں نے مجھے کہا کہ جھوٹ کہتے ہو۔ صرف ابوبکرؓ نے کہا کہ آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، ابوبکر نؓے اپنی جان اور مال سے میری غم خواری کی تو کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو بحث وتنقید سے معاف رکھو گے؟
ہجرت مدینہ کے اس جان لیوا، دشوار گزار اور پْرخطر سفر کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضور نبی کریم ؐکا صحابی فرمایا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے نبی کریمؐ کی معیت میں ساری زندگی گزاری۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل نہیں کیا جو نبی کریمؐ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور نبی کریمؐ کے حالات زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوگا کہ نبی کریمؐ اور جناب ابوبکرؓ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ دونوں کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔ اسی طرح بیماری کا عرصہ بھی ایک ہی تھا۔ ہر دو حضرات کے وصال کے بعد سب سے بہتر شخصیت نے ان کی جگہ سنبھالی یعنی نبی کریمؐ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور بعد میں سیدنا عمرؓ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ جب سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ بنائے گئے تو انہیں خلیفہ رسولؐ کہا جاتا تھا۔ یہ لقب امت میں صرف سیدنا ابوبکرؓ کو حاصل ہے۔ جب کہ دیگر خلفاء کے لیے امیرالمومنین کا لقب استعمال کیا گیا۔
سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے دو سال تین ماہ گیارہ دن نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد 63سال کی عمر میں وفات پائی۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور ”روضہ رسولؐ‘ میں اپنے محبوب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہوئے۔