اسدشہزاد
دہشتگردی، قتل وغارت، کرونا، اومی، ڈینگی، کمرتوڑ مہنگائی، حکمرانوں اور اپوزیشن کے درمیان سنگین الزامات، آئی ایم ایف کے بجٹ کی تباہ کاریاں کسی کو ہنساتا، کسی کو رُلاتا تاریخ میں المناک واقعات رقم کرتا گزرگیا۔ پل پل موت، پل پل پریشانیاں، پل پل بُری خبریں جہاں پوری دنیا متاثر ہوئی وہاں ہم برے حالات کا شکار رہے۔ 2021ء کسی بھی لحاظ سے کوئی ایک اچھا سال نہیں تھا۔ سابقہ گزرے سالوں میں اگر دس عشروں کی بات کروں تو قوم ہمیشہ بے یارومددگار رہی۔ 2021ء میں تو قوم نے بڑی سونامیوں کو فیس کیا۔ غریب تو غریب، امیر بھی پریشان رہے۔ 2021ء میں بجلی ملی نہ گیس، روٹی ملی نہ نوکری، گھر ملے نہ کاروبار چلے اور نہ وعدے پورے ہوئے، نوکریوں والے بے روزگار تو گھر والے بے گھر، چینی مافیا، آٹا مافیا، لینڈمافیا اور مافیاز نے جہاں عوام کو رول دیا وہاں ہم نے رشوت کے بازار گرم ہوتے دیکھے کہ کرائم بڑھتا ہوا دیکھا، ہنستے چہروں کو غمزدہ دیکھا یہ سب کچھ 2021ء نے ہمیں دیا۔
سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن … اور سال یعنی … سال 2021ء گزر گیا … دیکھاجائے تو لفظوں کا یہ گورکھ دھندہ ہرسال بدلتا ہے۔ ہرسال یکم جنوری سے 31دسمبر کی رات تک یعنی پورا سال اپنی تباہیاں، بربادیاں، نفرتیں، تلخیاں، موتیں دکھاتا گزر جاتا ہے جیسے 2021ء بھی گزر گیا۔
لفظوں کا گورکھ دھندہ ہر سال صرف ہندسے بدلتے ہیں جس طرح پہلے 2020ء کی جگہ 2021ء نے لی۔ اب 2021ء کی جگہ 2022ء نے لے لی۔ آج 2جنوری 2022ء کا سورج 12ماہ کے لیے اپنی مدت مکمل کرنے کے لیے طلوع ہوچکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 31دسمبر 2021ء کی رات 12بجے کے بعد بدلا کیا ہے۔
غربت بدلی … نہیں بدلی
حکومت بدلی … نہیں بدلی
مہنگائی کم ہوئی … نہیں ہوئی
پٹرول کم ہوا … نہیں ہوا
آئل گھی سستا ہوا … نہیں ہوا
رشوت کم ہوئی … نہیں ہوئی
احتساب ہوا … نہیں ہوا
بجلی کے ریٹ کم ہوئے… نہیں ہوئے
بے روزگاری کم ہوئی … نہیں ہوئی
وقت بدلا … نہیں بدلا
حالات بدلے … نہیں بدلے
موسم بدلے … نہیں بدلے
کیا ڈالر کا ریٹ کم ہوا … نہیں ہوا
کیا روپے کی قدر بڑھی … نہیں بڑھی
کیا ہم حلال کی بجائے حرام کھانے پر مجبور نہیں ہوئے …ہوئے
جب کچھ نہیں بدلا، معاملات جوں کے توں ہیں جو 2021ء نے ہمارے حوالے کیے تھے۔ کرونا، ڈینگی، اومی کرون اور دوسری بیماریاں ختم نہ ہوئیں۔ پریشانیاں ختم نہ ہوسکیں۔ حکومتی جھوٹ سچ میں نہ بدل سکے۔ نوازشریف واپس نہ آسکے، زرداری کے خلاف مقدمات ختم نہ ہوسکے تو پھر صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لفظوں کا گورکھ دھندہ ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 2022ء ہم کو کیا دے گا اورہماری اس سے کیا اُمیدیں ہیں،اورکیا2021ء کے زخم پر 2022ء کیا مرہم رکھ سکے گا؟
کیا 2022ء میں غربت کا خاتمہ ہوسکے گا۔ مہنگائی کا جن بوتل میں قابو کیا جاسکے گا، بیروزگاری ختم ہو جائے گی۔ چینی، دال، آٹا، گوشت عوام کی دسترس میں ہو گا؟
ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا بلکہ 2021ء کی وراثت میں ملے حالات، واقعات، بیماریاں، سنگین مسئلے مسائل اضافہ دیں گے کم نہیں ہوں گے۔ سیاست میں گالیاں، الزامات، بکواس، احتساب کی آڑ میں سیاستدانوں کو عدالتوں اور جیلوں کی ہوا کھانی پڑے گی۔ نہ فلسطین نہ کشمیر آزاد ہوگا، مشکلات میں اضافہ ہو گا یعنی 2022ء کا طلوع ہونے والا سورج پاکستان کے لیے وہ نیک شگون جس کی توقعات ہوتی ہیں وہ پورا نہ ہوسکیں گی۔
یہ حقیقت ہے کہ 2021ء کے دیے دُکھ، اس کے دیے زخم، اس کے چھوڑے لمحہ فکریہ۔
وسوسوں، سوچوں، پریشانیوں میں بند 2021ء کے اُگائے پودے سکون اور چین کی زندگی کا سایہ نہیں دے سکیں گے اور یہ زخم سالوں نہیں عشروں تک ساتھ چلیں گے۔ 2022ء ہماری آزادی کا 75واں سال لے کر طلوع ہوتے ہوئے پہلے سلور، پھر گولڈن تو اب پلاٹینم جوبلی میں داخل ہوچکا ہے۔ بجائے کہ ہم بہت ترقی یافتہ ممالک میں تصور ہوتے، ہم تو اور پیچھے اور پیچھے کی طرف دھکیل دیے گئے ہیں۔ 74گزرے سال بھی کبھی سالِ نو تھے، ہم نے کیا کیا، ہم سے کیا کروایا گیا، ہمیں کہاں لاکھڑا کی گیا، زخموں کے اوپر، ہم نے کتنے زخم نہیں کھائے، ہم نے بری سے بری روایات کو اپنایا، نہ لیڈر مل سکے نہ عوام سدھر سکے، اپنے کیے جرم کی دوسروں پر ڈالنے کی روایات کو تقویت دی وہ کم نہیں ہوئے۔ لیاقت علی خان سے عمران خان تک کتنے آئے کتنے سہانے سپنے خواب، وعدے، روٹی مکان کے لارے لپے، کتنے ڈکٹیٹرز ہم پر مسلط کیے گئے یہ سب اپنی قسمت تو تار گئے مگر عوام ہاتھوں میں کشکول پکڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔
2022…!
نہ بھوک ختم کرسکے گی نہ حالات میں بہتری آئے گی۔ اس لیے کہ یہاں لفظوں کا گورکھ دھندہ انسان کو الجھائے رکھتا ہے وہاں عوام کو بھی ظلم سہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ کل کسی دوست نے کہا کہ 2022ء آگیا ہے اس کے چہرے پر تفکرات، فکرات اور مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا پھر کیا ہو گا۔ اگر 2022ء آگیا ہے یہ تو نظامِ قدرت ہے اس کی تو تاقیامت چلتے رہنا ہے۔ جب تک ہم زندہ ہیں سال آتے رہیں گے، گنتی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ہم ہرسال یہی لکھتے رہیں گے جو گزرے سالوں سے لکھ رہے ہیں۔ واقعات دہراتے رہیں گے اسی طرح مہنگائی بڑھتی رہے گی، بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ کرونا، اومیکرون اورڈینگی ساتھ ساتھ رہیں گے۔نظام تعلیم کبھی بندشوں کاشکارتوکبھی کھلے گا ،اگرزندگی نے وفاکی تو 2022کے انہی دنوں میں دکھ سکھ’’پھرولیں‘‘گے کہ2022کیسارہا اور2023کیسا رہے گا۔
٭٭٭