سانحہ مری کا ذمہ دار این ڈی ایم اے ہے: چیف جسٹس اطہر من اللہ 

سانحہ مری کا ذمہ دار این ڈی ایم اے ہے: چیف جسٹس اطہر من اللہ 
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ این ڈی ایم اے پہلے سے تیار ہوتا تو مری میں 22 لوگ نہ مرتے ۔ سانحہ مری کا ذمہ دار این ڈی ایم اے ہے۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ  میں سانحہ مری کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت سمجھنا چاہتی ہے کہ ان 22 لوگوں کا ذمہ دار کون ہیں؟ اگر آپ سب پہلے سے تیار ہوتے تو22 لوگ نہ مرتے  ۔ این ڈی ایم اے سانحہ مری کا ذمہ دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ  اس قانون میں جتنے لوگ ہیں اور پوری ریاست مری میں مرنے والوں کی ذمہ دار ہے ۔ عدالت نے  این ڈی ایم اے کو وزیر اعظم کو میٹنگ بلانے کے لیے خط لکھنے کا حکم دیدیا ۔

عدالت  نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے افسر پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں تو کسی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں ۔ قانون پر عملدرآمد کرانا آپکا کام تھا ۔ ڈسٹرکٹ پلان ہوتا کوارڈینیشن ہوتی تو ایسا واقعہ رونما نہ ہوتا، باہر جاکر تقریریں سب کرتے ہیں بس قانون پر عملدرآمد کوئی نہیں کرتا۔

عدالت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے افسر پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ غیر متعلقہ بات نہ کر یں جو سوال پوچھا اسی کا جواب دیں ۔

دوران سماعت این ڈی ایم اے کمیشن کی 11 سال میں صرف دو میٹنگز ہونے کا انکشاف ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ  کسی لیڈر آف دی اپوزیشن نے 2018 کے بعد آپ کو میٹنگ بلانے کی درخواست کی ہے؟ نمائندہ این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ 2018 کے بعد کسی بھی اپوزیشن لیڈر نے ہمیں میٹنگ بلانے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی۔

عدالت نے کہا کہ  اتنی بڑی اور مظبوط باڈی ہے، کیا ڈائیریکٹر این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو میٹنگ بلانے کا لکھا ؟ نمائندے نے اس پر جواب دیا کہ کووڈ کے دنوں میں ڈی جی نے وزیراعظم کو میٹنگ بلانے کے لیے درخواست کی تھی۔ 

چیف جسٹس اطہر من اللہ   نے  ریمارکس دیے ، سانحہ مری پر انکوائری کی ضرورت ہی نہیں  اگر این ڈی ایم اے نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون   نافذ کیا ہوتا تو مری میں ایک بھی موت نہ ہوتی    یہ   ادارہ بنایا ہی اس لئے تھا کہ قانون نافذ کریں گے ،   عدالت نے ممبر این ڈی ایم اے کو حکم دیا کہ وزیراعظم کو  آج ہی کمیشن کا اجلاس  بلانے کے لیے خط لکھیں . ذمہ دار وں کے خلاف کارروائی کر کے  رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

مصنف کے بارے میں