عمران خان نے پاکستان کی ستر سال سے زیادہ تاریخ کے دوران اپنے متنازع ترین عہد میں ملک کو عجیب گھمن گھیری میں ڈال دیا ہے… اس کے نتیجے میں وہ اور ان کے ارکان حکومت ایسے پیچیدہ مخمصوں میں پھنس گئے ہیں خود نکلنے کی راہ نظر نہیں آ رہی اور اہل وطن کو بھی اپنا راستہ ڈھونڈنے میں ہزار دقتیں درپیش ہیں… کمر توڑ بلکہ عام آدمی کو نچوڑ کر رکھ دینے والی مہنگائی کے بارے میں موصوف نے تازہ ارشاد یہ فرمایا ہے چونکہ خطے میں پاکستان کے اندر اس کا تناسب سب سے کم پایا جاتا ہے یہ امر ان کی کامیابی پر دلالت کرتا ہے لیکن ان کے اپنے ہی سب سے زیادہ مقبولیت والے علاقے صوبہ خیبرپختونخوا میں موصوف کو انتخابات میں جس شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا سبب علاقے کے لوگ یعنی ان کے دلدادگان ناقابل برداشت مہنگائی، تکلیف دہ حد تک چھو جانے والی بیروزگاری اور حکومتی نظم و نسق کے فقدان کو قرار دے رہے ہیں… یہ ان کے دعوے کے خلاف اتنی بڑی شہادت ہے کہ ان کے قریبی ساتھیوں کے لئے بھی انکار ممکن نہیں… اس سے قطع نظر اگر ہم حزب اختلاف کے ناقدین کی آراء سے صرف نظر بھی کر لیں تو تمام کے تمام اقتصادی مبصرین، بین الاقوامی ماہرین معیشت کی اکثریت جو ہمارے اقتصادی حالات کی ایک ایک کروٹ پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں مل کر تصدیق کرتے ہیں موصوف کا دعویٰ ننگے حقائق کی تکذیب کرتا ہے… ایک حکومت جس کی ساکھ پہلے ہی بری طرح متاثر ہے اگر اس کا سربراہ اور سب سے بڑا چیمپئن اس نوعیت کے دعوے کر کے اہل وطن کو نقش بر آب قسم کے فریب میں مبتلا کرنے کی پیہم کوششیں جاری رکھے گا تو فطری بات ہے دنیا اور عوام کی نگاہوں میں اس کی ساکھ چھٹانک بھر سے بھی کم رہ جائے گی… یہ وہ صورت حال ہے جس کا وہ لمحہ موجود کے اندر شکار ہوتے جا رہے ہیں… اس پر بھی مستزاد یہ کہ ریاسی و حکومتی نظم و نسق کی پراگندہ خیالی ہمیں جس مقام پر لے گئی ہے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران اس کی مثال بھی کم نظر آتی ہے… پاکستان کی اس حد تک برباد شدہ صورتحال اور تیزی سے تنزل شدہ ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی مالیتی اداروں خاص طور پر آئی ایم ایف نے محض ایک ارب ڈالر کی قرضے کی قسط دینے سے پہلے یہ کڑی شرط عائد کی ہے کہ عمرانی حکومت اس رقم کے حصول کی خاطر اپنی پارلیمنٹ سے پیشگی منظوری حاصل کرے جس کے منظور ہو جانے کی صورت میں ٹیکسوں کا ایک طوفان ابھر آئے گا… سٹیٹ بنک آف پاکستان خودمختار ہو کر آئی ایم ایف کے احکامات کی پٹڑی پر چل نکلے گا… ہماری معاشی اور مالیاتی خودمختاری ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہو جائے گی جو ملک مالیت کے میدان میں بیرونی اداروں کا دست نگر بن جائے اس کی اپنی خودمختاری بھی لامحالہ بہت بڑا سوالیہ نشان بن جاتی ہے… اسی کے ردعمل نے قوم کے سامنے آزاد پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں جس کا مناسب جواب اہل حکومت کو نہیں مل رہا لہٰذا ردعمل میں ایک شورِ قیامت برپا ہے اپوزیشن کی جماعتیں اس کی مخالفت میں ڈٹ گئی ہیں حکومت کو اپنے اتحادیوں کے تعاون کا یقین تھا کہ وہ ساتھ دیں گے لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دو اہم اتحادی ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اس پر سخت تحفظات رکھتے ہیں لہٰذا اس بل کا پاس ہونا کارِدارد نظر آتا ہے… حکومت گھر کی رہے گی نہ گھاٹ کی… اس تناظر میں ہمارا کھلاڑی اور موجی وزیراعظم اگرچہ لوگوں کو اعتماد بھرا چہرہ دکھا رہا ہے لیکن اس کے اندر کی کیفیت سخت پریشان کن حالات کی چغلی کھا رہی ہے…
اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اگرچہ بل کی مخالفت پر یکجا کھڑی ہیں… دعویٰ کرتی ہیں وہ اسے منظور نہ ہونے دیں گی… ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیں گی… کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں اس کا آنے والے چند روز میں پتا چل جائے گا… اپوزیشن پورے جوش و خروش کے ساتھ احتجاجی جلسے اور جلوسوں کا پروگرام تیار کر رہی ہے مگر تاحال وہ باہمی طور پر حقیقی اتحاد اور قطعی سیاسی مقاصد کی ہم آہنگی کو وجود میں نہیں لا پا رہی… جناب زرداری نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے ان کی جماعت پی ڈی ایم میں شامل نہیں ہو گی… ابھی تک ان سے یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ احتجاجی اجلاس میں مشترکہ طور پر اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کریں گے یا اتنے بڑے چیلنج سے نبردآزما ہونے کی خاطر اس وقت بھی اپنی اپنی ڈفلی بجاتے رہیں گے… اس میں لامحالہ حکومت کو
فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے کیونکہ منتشر شدہ اپوزیشن خواہ کتنی مخالفت کرے اس کی آواز میں وہ قوت اور جوش پیدا نہیں ہو سکتا جو آن واحد میں ایک حکومت کے بھی پائوں اکھاڑ کر رکھ دے… دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ اس جانب بھی ایک بڑے قومی لیڈر کی عدم موجودگی کا خلا پایا جاتا ہے جسے پورا کئے بغیر قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتی… اس ضمن میں تازہ ترین اور قدرے حوصلہ افزا خبر یہ ہے بلااختلافِ رائے پاکستان کے سب سے بڑے آئین دوست اور جمہوری تسلسل کی پائیداری کے حق میں ڈٹ کر جمے رہنے والے لیڈر میاں نوازشریف نے اپنی آمد کی تیاریاں شروع کر دی ہیں… ملک کے اندر وکیلوں اور قانون کے پاسداروں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب احسن بھون نے بڑی محنت اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گزشتہ ماہ لندن میں نوازشریف سے تفصیلی مشورے کے ساتھ ایک آئینی پٹیشن تیار کی ہے جو دستورِ مملکت کی دفعہ 184/3 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ صوابدیدی اختیار تجویز کرتی ہے کہ وہ نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کا حق استعمال کرے کیونکہ ایک سیاستدان کو محض انتخابی تنازع پر عمر بھر کے لئے نااہل نہیں قرار دیا جا سکتا… یہ امر انصاف کے بنیادی تقاضوں کے ساتھ لگائو نہیں کھاتا… خاص طور پر ایسا فیصلہ جس کے خلاف اپیل کا حق دستیاب نہ ہو… پچھلے دنوں آٹھ ہزار برطرف شدہ سرکاری ملازموں کو بحال کر کے عدالت عظمیٰ نے اپنے ہی فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا تھا اس کی روشنی میں قوی امکان پایا جاتا ہے کہ تین مرتبہ منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم کو بنیادی انصاف کے حصول میں زیادہ دقت پیش نہ آئے گی… اسی امکانی پیش رفت میں ایوان ہائے حکومت میں فطری طور پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں… ردعمل میں وزیر اطلاعات فواد چودھری کے بیان کے مطابق شہباز شریف کے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے گا کہ انہوں نے بھائی کو بروقت واپس لانے میں تساہل سے کام لیا… انہیں شبہ ہے فوجی ترجمان کے اعلان کے باوجود میاں نوازشریف کو واپس لانے کی بابت کوئی غیراعلانیہ مفاہمت پیدا ہو چکی ہے… لہٰذا عمران حکومت بھی پوری کوشش کر دیکھے گی نوازشریف کو حکومتی شرائط کے مطابق واپس آنے دیا جائے گا یا وہ آتے ہی اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں… حقیقت جو بھی ہو تین مرتبہ منتخب ہو جانے والا اور آئین و دستور کی بالادستی کی خاطر پہاڑ کی مضبوطی کی طرح جم جانے والا وزیراعظم خواہ جیل میں بند کر دیا جائے یا آزادی نصیب ہو دونوں صورتوں میں عوامی طاقت بن جائے گا جس سے اس خلا کو پورا کرنے میں مدد ملے گی جس سے اپوزیشن کی تحریک ان دنوں دوچار ہے پھر یقینا آئین و جمہوریت کے تسلسل اور ٹھوس سیاسی عمل کے قافلے کو اپنے راستے پر رواں دواں ہونے میں مدد ملے گی… کسے اختلاف ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کو آمرانہ اور سفاکانہ گرداب سے باہر نکلنے کی راہ مل پائے گی… نومبر 2019 میں علاج کی خاطر لندن جانے کے بعد نوازشریف صاحب سے لغزش ہوئی انہوں نے اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدئہ مدت میں توسیع دینے کے ووٹ کی حمایت کر دی اس پر میں نے انہی صفحات میں موصوف پر سخت تنقید کی تھی اور اسے ان کی اصول پسندی کے خلاف قرار دیا تھا… میری یہ بات غالباً انہیں پسند نہ آئی… بعدازاں پچھلے سال ان کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی یہ کہہ کر اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ وہ اس گناہ میں شریک نہیں تھیں تاہم اب میاں نوازشریف دوبارہ اپنے اس مؤقف پر ڈٹ گئے ہیں وہ کسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت کے اصول پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے…
تاہم ان کے لوٹ آنے اور بہت بڑی عوامی قوت بن جانے کے باوجود اہلِ وطن کو ایک بڑا اور مہیب چیلنج درپیش رہے گا وہ ہے 2023 میں یا اس سے ماقبل ایسے آزاد اور شفاف ترین انتخابات کا انعقاد جن کے نتائج حاصل کرنے میں بیرونی یعنی صاف الفاظ میں فوجی مداخلت کا شائبہ تک باقی نہ رہے… انتخابات کے میدان میں ہمارے نام نہاد عوامی وزیراعظم کے پتلے اور منفی ریکارڈ کا یہ عالم ہے صوبہ پنجاب میں ماسوائے ایک کے تمام ضمنی انتخابات ہار چکے ہیں… خیبرپختونخوا کے زیادہ تر بلدیاتی انتخابات میں وہ تھپڑ رسید ہوا ہے کہ سمجھ میں نہیں آ رہا اصل سبب کو خیرکہاں تلاش کریں اب جو عام انتخابات ہوں گے ان میں ان کی شکست یقینی نظر آتی ہے… البتہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ والے خطرے کی گھنٹیاں بھانپ کر اپنی خفیہ طرازی کی تمام تر فنکاریوں اور ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے پر اتر نہ آئیں اور یہ دعوے بھی کرنے پر اتر نہ آئیں اور یہ دعوے بھی کرتے رہیں کہ ان کا ان نتائج سے کوئی تعلق ہی نہیں اس فن کے ’’ماہرانہ‘‘ استعمال کا ہنر انہوں نے کئی دفعہ آزمایا ہے اب یہ میاں نوازشریف کی بنیادی ذمہ داری ہو گی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شفاف ترین انتخابات کی پکی ڈیل کی ہے یا نہیں کی… اسے پوری عوامی قوت کے ساتھ مقتدر عناصر کو اس کام سے دور بلکہ بہت دور رکھیں… صرف اسی صورت میں پاکستان کا اقتدار عوام کے حقیقی اور منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جا سکتا ہے خواہ کوئی جماعت یا ان کا اتحاد کامیاب ہو یا اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے… عوام جن کے گلے میں کامیابی کے ہار ڈالے گی آزادانہ حکومت کی باگ ڈور بھی انہی لوگوں کے ہاتھوں میں دینا پڑے گی… جتنی آزاد حکومت ہو گی اتنی بے باکی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اس کو اپنے اور عوام کے سامنے جواب دہ بنانے کے لئے اپوزیشن بھی فرائض سرانجام دے گی تب قوم ایک اندھیری خندق سے باہر نکل آئے گی… اہل وطن کیا پوری دنیا کے اندر اس کی ساکھ دوبارہ بننی شروع ہو جائے گی… پھر پائیدار اقتصادی ترقی کے دروازے بھی کھلنا شروع ہو جائیں گے جو بلاشبہ جان جوکھوں کا کام ہے لیکن بظاہر ناکام قومیں اسی طرز عمل کو اپنا کر اگر چاہیں تو اپنے راستوں سے کانٹے بھی چن سکتی ہیں اور آگے بڑھنے کی گاڑی کو بھی رواں دواں کر سکتی ہیں… ہماری افواج بلاشبہ ایک محب وطن اور منظم ترین لڑاکا قوت ہیں… اگر وہ ایک مرتبہ فیصلہ کر لیں کہ صرف اپنے پیشہ وارانہ مشن پر قائم رہنا ہے… آئین اور جمہوری حکومت کی تابع داری کرنی ہے تو کوئی امر مانع نہیں وہ اپنی تاریخ میں ہی ایک نئے اور روشن باب کا اضافہ کریں…
حوصلہ افزا خبر ؟
08:53 AM, 13 Jan, 2022