سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس : 9 مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے، دوران سماعت جج کے ریمارکس

سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس : 9 مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے، دوران سماعت جج کے ریمارکس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے 9 مئی کے واقعات پر سخت سوالات کیے اور کہا، "کیا آپ یہ بات  تسلیم کرتے ہیں کہ 9 مئی کا جرم سرزد ہوا ہے؟ 9 مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں؟"

آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، جس میں سات رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائیکورٹ طرز کے ججز کرتے ہیں، تاہم جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں دیکھنا ۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ برطانوی قانون اپنی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے، موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا، شہریوں پر یہ قانون کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ سلمان اکرم نے کہا کہ انہوں نے برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے مزید کہا کہ عالمی قوانین کو بھی دیکھنا ہوگا، اگر دفعات کالعدم نہ ہوتیں تو دلائل غیر متعلقہ ہو سکتے تھے، لیکن اب وہ متعلقہ ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شہریوں کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں، جس پر جسٹس مسرت نے جواب دیا کہ 9 مئی کے واقعات میں "حد کردی گئی" اور آپ اب بنیادی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔

جسٹس حسن رضوی نے فوجی کورز کی مثال دیتے ہوئے سوال کیا کہ کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنائی جائے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم کر دینا بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے 21 ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی سیاسی جماعت نے ملٹری کورٹس کی حمایت کی تھی، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ عدالت میں کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہے اور اس وقت جو ہوا تھا وہ غلط تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹر کورٹ اپیلوں پر سماعت 18 فروری تک ملتوی کر دی۔

مصنف کے بارے میں