ایک تماشا ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں کی باتوں میں وزن لگتا ہے کہ یہ حکومت خود اپنے بوجھ سے گر جائے گی۔ اپوزیشن کا کام حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنا ہے اور وہ اسے اپنے انداز میں سر انجام دے رہی ہے مگر خود کابینہ کے اراکین نے عمران خان کی کارکردگی کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ سکول کی طرز پر کابینہ کے اراکین کی کاکردگی کا جو رزلٹ سنایا گیا ہے اس سے کابینہ کے دوسرے اراکین رنجیدہ ہیں اور جس میکنزم کو استعمال کرتے ہوئے بہترین کارکردگی والے وزرا کو سرٹیفیکٹ سے نوازا گیا ہے وہ اس وقت تنقید سے دوچار ہے۔ سیدی شاہ محمود قریشی نے باقاعدہ تحریری طور پر اس پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ باقی بھی اپنے اپنے انداز میں اپنی ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔ وزرا کی کاکردگی کو اس طرح دنیا کے سامنے رکھنے کی یہ روایت پہلے سے موجود نہیں ہے کہ اپنی ٹیم میں سے ایک کو نکما اور دوسرے کو لائق ثابت کیا جائے۔ عمران خان کا مقصد یقینی طور پر مقابلے کی فضا پیدا کرنا ہے تاکہ وزرا دلجمعی سے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں مگر اس سے فائدے سے زیادہ نقصان ہونے کا احتمال ہے۔ کارکردگی کے اس جائزے کے بعد اصولی طور پر ان وزرا کو باہر آ جانا چاہیے جن کی کاکردگی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ یہ طریقہ انہیں عوام میں ذلیل کرنے کا ہے۔ اس رسوائی کے بعد بھی وہ اگر وزارتوں میں رہتے ہیں تو کابینہ کے ہر اجلاس میں شرمندگی کے بوجھ کے ساتھ شریک ہوا کریں گے۔
کاکردگی کو جانچنے کے لیے کوالیٹیٹو اور کوالنٹی ٹیٹو طریقے کار کو اپنایا گیا۔ وزرا کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے پہلے کیا یہ ضروری نہیں کہ اپنے کپتان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے کہ انہوں نے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے سو دن کے جو اہداف مقرر کیے تھے ان کو ایک ہزار سے زائد دنوں میں بھی حاصل کیا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہیں۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کیںپیرامیٹر خود طے کر لیے تھے، بدقسمتی سے کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ کپتان کو چاہیے تھا کہ پہلے خود اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے مگر ہیڈماسٹر بن کر دوسروں پر تنقید کرنا بہت آسان کام ہے۔ عمران خان بھی کابینہ کا حصہ ہیں ایسے میں ان کی کارکردگی کا سکور یا کارکردگی شیٹ بھی سامنے آنا چاہیے تھی۔ اگر ان کا موازنہ دوسرے وزرا اعظم کی کارکردگی سے کرنا ہے تو اپنے خطے میں دوسرے تمام وزرا اعظم کی پرفارمنس ان سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایک پیمانہ مقرر کیا جائے تو شاید نیپال کے وزیراعظم کی کارکردگی بھی ان سے بہتر ہو۔ ہاں افغانستان ان سے پیچھے ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں ابھی تک کوئی وزیراعظم نہیں ہے۔
لمبر ون آنے والے مراد سعید کی کارکردگی کو بھی ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ میں کل ہی پوسٹ آفس ایک کام سے گیا تھا اور میں نے وہاں کے عملے کو مبارک باد دی کہ آپ کے محکمے کے وزیر کو پہلا نمبر ملا ہے تو انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا انہیں یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوسٹ آفس میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ موٹروے پر ٹال ٹیکس کئی گنا زیادہ بڑھا دیا گیا ہے کیا اس کو کارکردگی کے پیمانے کے طور پر لیا گیا ہے۔ کیا کارکردگی کا پیمانہ یہ ہے کہ کس محکمے نے عوام کا زیادہ خون نچوڑا ہے۔ اگر یہ پیمانہ تھا تو پھر پہلا نمبر وزیر خزانہ کو دیا جانا چاہیے تھا۔
وزیراعظم جمہوریت کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ کابینہ میں انفرادی کارکردگی پر کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا بلکہ یہ اجتماعی ذمہ داری ہے اگر کسی وزیر کی کارکردگی خراب ہے تو اس کا جائزہ وزیراعظم کو کابینہ کے اجلاسوں میں لے کر اصلاح احوال کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کوئی وزیر کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم میں یہ اہلیت موجود نہیں کہ وہ موزوں افراد پر مشتمل ٹیم تشکیل دے سکے۔ جس طرح بلاول بھٹو اردو سیکھنے کے لیے باقاعدہ کلاسز لیتے ہیں اسی طرح وزیراعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ کسی سے جموریت، جمہوری اقدار اور طرز حکومت کو چلانے کے لیے کلاسز لیں۔ وہ ہر بار یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مطلق العنان اختیارات چاہتے ہیں۔ یہ کرکٹ ٹیم منتخب کرنے کا معاملہ نہیں ہے کہ مخالف ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں کے مقابلے میں اپنے کھلاڑی سامنے لانے ہیں۔اس مقابلے کی نوعیت مختلف ہے اور اس کے لیے مختلف انداز اپنانا ضروری ہے۔ کارکردگی کے جائزے کے لیے کمیٹیاں بنتی ہیں اور ہر حکومت کے اندر بازپرس کا ایک نظام موجود ہوتا ہے لیکن میرا کپتان ہر کام عوام کے سامنے کرنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے اسی طرح کا مظاہرہ بیرون ملک تعینات سفیروں کی کانفرنس کے دوران کیا گیا اور سفیروں کو کارکردگی کو بہتر بنانے سے زیادہ انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ بات نہیں ہے کہ بیرون ملک ہمارے سفارتی مشن بہت اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں لیکن سرزنش کا جو انداز اپنایا گیا وہ درست نہیں تھا۔ فواد چوہدری سے جتنا مرضی اختلاف کریں جن حالات میں انہوں نے حکومت کی ترجمانی کی ہے انہیں ٹاپ ٹین میں نہ لا کر حکومت نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اس حکومت کے اقدامات کا دفاع کرنا سب سے مشکل کام ہے اور وہ کام فواد چوہدری بخوبی کرتے رہے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرنے والے وزیراعظم کے دور میں بیروزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہوا،ملک میں کاروبار کرنا آسان نہیں مشکل تر ہو گیا، ٹیکسوں کی بھرمار نے کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی پریشان کر دیا لیکن فواد چوہدری اس کے باوجود وزیراعظم کی ٹیم کا دفاع کرتے رہے۔ عوام کے کانوں میں ابھی تک وہ الفاظ گونج رہے ہیں کہ مجھے ٹیم بنانا آتی ہے۔ خراب کارکردگی کے جائزے پیش کر کے آپ بری الزمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ اس ٹیم کے کپتان ہیں اور اس کی خراب کارکردگی کے ذمہ دار بھی آپ ہیں۔