داعش افغانستان کے اندر ایک خطرہ ہے اور اس کی نظریں طالبان پر ہیں:وائٹ ہاؤس کا انتباہ

07:51 PM, 13 Dec, 2024

نیوویب ڈیسک

واشنگٹن: وائٹ ہائوس نے  خبردار کیا ہےکہ داعش خراساں کی بڑھتی ہوئی طاقت طالبان حکومت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔وائٹ ہائوس نے خلیل  حقانی کی ہلاکت پر  رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ داعش کی نظر اب  طالبان  پر  ہے۔وائٹ ہاؤس کے بیان میں ISKP (داعش خراساں )کی طالبان کو نشانہ بنانے کی صلاحیت، خاص طور پر ان کی قیادت پر زور دیا گیا ہے۔ افغانستان میں ISKP کی موجودگی کو عالمی سیاست میں ایک اہم عنصر کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
 وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں نیشنل سکیورٹی کمیونیکیشنز کے مشیر جان کربی کا کہنا ہے کہ  افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کی دنیا بھر میں دہشتگردی کے امکانات کے خلاف کارروائی کی اہلیت میں اضافہ ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس حملے سے طالبان کی سکیورٹی کی حکمت عملی اور اندرونی کمزوریوں پر سوالات اٹھ سکتے ہیں اور افغانستان میں عدم استحکام میں اضافے کے خدشات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما کو ان کے دفتر کے احاطے میں مارا جانا ایک بڑی سکیورٹی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔ خلیل الرحمان حقانی کے قتل کے ذریعے  حملہ آور یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ افغانستان ہرگز ایک محفوظ ملک نہیں ہے۔
 اس  واقعے نے عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا اور دنیا بھر نے اس  کی مذمت کی ہے۔یہ صورتحال افغانستان کے بدلتے ہوئے سکیورٹی منظرنامے پر بین الاقوامی توجہ کی ممکنہ تجدید کی نشاندہی کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق  پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک طویل عرصے سے افغانستان میں ٹی ٹی پی، داعش خراساں ، اور اے کیوکی طرف سے لاحق خطرات کے بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں۔
 ان گروپوں کے ایجنڈے اور بعض مواقع پر باہمی تعاون افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک، خاص طور پر پاکستان کے لیے ایک مشترکہ چیلنج پیش کرتے ہیں۔ ان گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور سرگرمیاں ایک وسیع تر عالمی سلامتی کے مسئلے میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
 رپورٹ کے مطابق   اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ افغانستان انتہا پسند گروپوں کے لیے ایک مرکز بننے کے خدشے کو بڑھا رہا ہے، جس کے علاقائی اور عالمی اثرات ہو سکتے ہیں۔ یہ بیانیہ ان خدشات سے ہم آہنگ ہے جو افغانستان سے آپریٹ کرنے والے عسکریت پسند نیٹ ورکس کے سرحد پار اثرات کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔داعش خراساں   کا کردار افغانستان کی قیادت پر زور ڈال رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی دباؤ کے درمیان ان خطرات کو فوری طور پر حل کرے۔
واضح رہے کہ 70 سالہ خلیل حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع 'گردی سڑی'سے تھا۔ خلیل حقانی سویت افواج کے خلاف افغان مزاحمت کاروں کے اہم کمانڈر جلال الدین حقانی کے چھوٹے بھائی تھے۔یاد رہے کہ  اس سے قبل اسی قسم کی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے ایک حملے میں اگست 2022 میں دارالحکومت کابل میں داعش نے طالبان کے بااثر مذہبی رہنما مولوی رحیم اللہ حقانی کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
2022 میں داعش کے مبینہ حملہ آور نے  رحیم اللہ حقانی کو  درسگاہ میں واقع دفتر کے سامنے نشانہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ مارچ 2023 میں شمالی افغان صوبہ بلخ کے طالبان گورنر مولوی داؤد مزمل کو بھی داعش کے ایک حملہ آور نے سائل کی روپ میں گورنر ہاؤس کے اندر پہنچ کر خودکش حملے کا نشانہ بنایا۔
یاد رہے کہ پاکستان اس نوعیت کے تمام تر الزامات کی متعدد بار تردید کرتے ہوئے دعویٰ کر چکا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے سرے افغانستان سے ملتے ہیں۔ پاکستان باضابطہ طور پر افغانستان میں طالبان حکام سے مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

مزیدخبریں