اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا۔ سپریم کورٹ نے فوجہ عدالتوں میں سویلینز کاٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے 5 ججز کے فیصلے سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہو گا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اپیلوں کے فیصلے تک 102 گرفتار افراد کے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حکم امتناع پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نےان اپیلوں کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت بھی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔
درخواستگزار سابق جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے جسٹس طارق مسعود کی بینچ میں موجودگی پر اعتراض کر رکھا ہے۔جسٹس طارق مسعود نے اعتراضات پر بینچ سے الگ ہونے سے انکار کر دیا۔جسٹس سردار طارق مسعود نے فریقین کے وکلاسے سوال کیا کہ آپ کو نوٹس کیا ہے کسی نے؟وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ فریقین کے وکلاکا اعتراض بے بنیاد ہے، پہلے میرٹس پر کیس سنیں، نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے۔وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہوگا۔
جسٹس سردار طارق نے وکلا سے سوال کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ جج کی مرضی ہے وہ اعتراض پر بینچ سے الگ ہو یا نہ ہو، میں نہیں ہوتا بینچ سے الگ، کیا کرلیں گے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر ہمارے اعتراض کے باوجود کیس سن رہے ہیں۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ تو کیا کھڑے ہوکر کیس کی سماعت کریں؟
اٹارنی جنرل دورانِ سماعت غصے میں بھی آئے۔انہوں نے کہا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جاسکتا ہے؟ جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود تو عدالت میں نہیں ہیں، بہتر ہے پہلے بینچ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کرے۔
ان اپیلوں کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ میں وہ جج صاحبان شامل نہیں ہیں جنہوں نے سویلین کے ٹرائیل فوجی عدالتوں میں چلانے کے حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کی طرف سےسپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کی گئی ہیں جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے فیصلہ سناتے وقت حقائق کو سامنے نہیں رکھا اور جلد بازی میں فیصلہ دیا گیا ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ چیلنج کر دیا تھا۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آرمی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
بعدازاں 21 نومبر کو نگران حکومتِ پنجاب نے بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
واضح رہے کہ جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائیل کو آئین کے منافی قرار دیا تھا اور آرمی ایکٹ میں سویلین کے ٹرائیل فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق قانون کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔ فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے سنایا گیا تھا اور جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔