انسان کو مختلف ادوار میں مختلف خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ اپنی عقل و شعور کی وجہ سے ایک مسئلے پر قابو پا لیتا ہے تو ایک نیا مسئلہ جنم لیتا ہے جو بنی نوع انسان کی عقل اور شعور کو ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے۔ حالیہ دور میں انسانی ماحولیاتی تبدیلیاں خطرناک روپ دھار چکی ہیں اور ان کی بڑی وجہ سموگ بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سالانہ 70 لاکھ افراد آلودہ ہوا کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار دیتے ہیں اور ان میں سے ایک بڑی وجہ سموگ بھی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ بات انتہائی خطرناک ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہے جہاں فضائی آلودگی کا معیار دنیا میں خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے اور ان میں خصوصاً پشاور، لاہور اور کراچی سرفہرست ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دس میں سے نو افراد ایسی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں جو انسانی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ سموگ 2 چیزوں کا مرکب ہے۔ ایک Fog اور دوسرا، Smoke یعنی دھواں۔ سموگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک فوٹوکیمیکل سموگ، یہ اس وقت بنتی ہے جب سورج کی روشنی خاص قسم کیمیائی مرکبات (VOC) اور نائٹرو آکسائیڈ کے ساتھ مل جائیں۔ یہ خصوصی طور پر شہری علاقوں میں پائی جاتی ہے جہاں گاڑیوں کی بہتات ہے۔ ان گاڑیوں، فیکٹریوں اور پاور پلانٹ سے نکلنے والا نائٹرو آکسائیڈ ہوا میں مل جاتا ہے۔ اسی طرح سے پینٹ اور صفائی کے لئے استعمال ہونے والے کیمیائی مرکبات بھی اڑکر ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کی سموگ کا زیادہ اثر سانس میں تکلیف اور دل اور پھیپھڑوں کا ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ دوسری قسم کی سموگ کو سلفر سموگ کہا جاتا ہے۔ یہ انڈسٹری سے نکلنے والے ذرات فوسل فیول، کوئلے کے جلانے اور درجہ حرارت کے اندر اچانک کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں ڈسٹ کے ذرات کے ساتھ ساتھ سلفر اور نائٹرس کے مرکبات زیادہ ہوتے ہیں اور اس کا حملہ خصوصی طور پر سردیوں میں ہوتا ہے۔ سلفر سموگ سے انسان کے پھیپھڑے کے ساتھ ساتھ آنکھ اور ناک بھی متاثر ہوتی ہے۔
ویسے تو سموگ سانس کی نالیوں، آنکھ کی جھلی اور جلد پر زیادہ اثر کرتی ہے لیکن اس کے بہت سارے مسائل ایسے بھی ہیں جو دوسرے اعضا اور سسٹمز پر نظر آتے ہیں مثلاً حاملہ خواتین میں ہونے والے بچے کی صحت متاثر کرتا ہے۔ اس میں ذہنی اور جسمانی نقائص پیدا ہو سکتے ہیں، پیدائشی وزن میں کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح بچوں میں ہڈیوں کا ٹیڑھا پن اور وٹامن ڈی کی کمی دیکھنے میں آتی ہے۔
سموگ کا سب سے بڑا اثر سانس کی نالیوں پر ہوتا ہے۔ سانس کی نالیوں کو آہستہ آہستہ متاثر کرتا ہے جس کے باعث ان میں دائمی سوزش پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے لوگ جنہیں دمہ کا مسئلہ ہو، ان میں دمے کا حملہ شدت اختیار کر سکتا ہے جس کے باعث مریض کو چھاتی میں تنگی، سانس میں تنگی اور سانس لینے میں آوازیں آ سکتی ہیں۔ ایسے افراد جنہیں پہلے سے دمہ کا مسئلہ ہو، انہیں اس موسم میں خاص احتیاط کرنی چاہئے اور علی الصباح یا رات کودیر تک باہر رہنے اور سموگ میں جانے سے پرہیز کرنا چاہئے ورنہ ان پر دمے کا حملہ زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ دمے کے ساتھ ساتھ سانس کی مختلف الرجیز، دائمی کھانسی اور بلغم بھی سموگ کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ سموگ کے کچھ اثرات تو فوری طور پر ہوتے ہیں لیکن سموگ میں موجود چند ذرات کا سائز اتنا چھوٹا ہے کہ وہ سانس کے ذریعے خون میں شامل ہو جاتے ہیں اور جسم کے مختلف اعضا تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں یہاں تک کہ یہ چھوٹے چھوٹے ذرات دماغ میں چلے جاتے ہیں اور دو یا تین دہائیوں کے بعد الزائمر کی بیماری کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ ذرات حاملہ ماں کے ذریعے بچے میں منتقل ہو سکتے ہیں اور اس کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔
تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ جو لوگ احتیاط نہ کریں اور سموگ میں کام کرتے رہیں یا سموگ میں پھرتے رہیں، انہیں سانس کی بیماریاں بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ سموگ میں موجود چند کیمیائی مادے جیسے Formaldehyde, Butadiela اور Belzene ازخود کینسر بنانے کا باعث بنتے ہیں اس لئے اگر سموگ سے احتیاط نہ کی جائے تو یہ کیمیائی مادے بالآخر سانس کی نالیوں میں کینسر بنانے کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں سموگ کا اثر ہو، ان میں ہارٹ اٹیک اور فالج کا حملہ بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ ان میں وزن میں بھی کمی ہوتی ہے۔
اگر کوئی شخص سگریٹ نوشی کا شوق رکھتا ہو یا ایسے لوگوں کے پاس بھی بیٹھا ہو جوسگریٹ نوشی کرتے ہوں، جن کو سیکنڈ ہینڈ سموکر کہا جاتا ہے، ان کے پھیپھڑے پہلے ہی متاثر ہو چکے ہوتے ہیں اس لئے ان میں سموگ زیادہ خطرناک مسائل پیدا کرتی ہے اور ان میں سانس کی بیماریاں، الرجیز، دمہ یہاں تک کہ کینسر کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں کو سموگ سے زیادہ احتیاط کرانی چاہئے اس لئے کہ ان کے پھیپھڑے کی نالیاں پہلے ہی تنگ ہوتی ہیں اور اس لئے ان میں سانس کی الرجیز، دمہ یہاں تک کہ نمونیا کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لئے بچوں کو بہت زیادہ احتیاط کرانی چاہئے۔ سموگ میں موجود دھواں بخارات اور کیمیائی مرکبات مل کر ایک ہموار تہہ بنا لیتے ہیں جو ہمارے قریب ہی زمین کے اوپر اکٹھی ہو جاتی ہے اور یہ تہہ اتنی خطرناک ہے کہ سورج سے نکل کر زمین پر آنے والی الٹراوائلٹ شعاعیں زمین تک نہیں پہنچ پاتیں جس کی وجہ سے جلد میں بننے والا انتہائی اہم وٹامن ڈی نہیں بن پاتا۔
وٹامن ڈی نہ بننے کی وجہ سے خصوصاً بچوں میں مسائل دیکھنے میں آتے ہیں۔
بچوں کی ہڈیوں کی نشوونما اور مضبوطی کے لئے وٹامن ڈی کی اشد ضرورت ہے اور اس سموگ کی وجہ سے اس میں کمی آتی ہے اور آہستہ آہستہ بچوں کی ہڈیاں ٹیڑھی ہو کر ان کے اندر کیلشیم اور فاسفورس کی کمی آ جاتی ہے اور ان کی ہڈیوں میں ٹیڑھے پن کا ایک مرض جسے Rickets کہا جاتا ہے، پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے بچوں میں ٹانگوں کا ٹیڑھا پن ہو جاتا ہے اور اگر یہ مسئلہ ٹھیک نہ کیا جائے تو ہڈیاں ساری عمر کے لئے کمزور رہ جاتی ہیں۔ خواتین میں سموگ کی وجہ سے ان کی ہڈیوں میں سے کیلشیم نکلنا شروع ہو جاتا ہے اور بڑی عمر کی عورتوں کی ہڈیاں کمزور ہو کر بھربھری ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہلکی سی چوٹ لگنے کی وجہ سے فریکچر کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہڈیوں پر اثر عمومی طور پرکالی رنگت والے افراد میں زیادہ ہوتا ہے۔
سموگ کا اثر حاملہ خواتین پر بھی ہوتا ہے۔ 5 مائیکرو گرام سے چھوٹے ذرات انتہائی خطرناک ہوتے ہیں جو پیدائشی طور پر کم وزن کے بچوں کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح یہ ذرات ماں سے بچے میں منتقل ہوکر بچے کی ریڑھ کی ہڈی پر بھی اثر چھوڑتے ہیں جس سے بچے کے ذہن کے اندر نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسانی صحت کے ساتھ ساتھ جانوروں، پودوں اور آبی حیات بھی سموگ کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکتے اس لئے ضروری ہے کہ سموگ پر جلدازجلد قابو پایا جائے۔