کیا کریں! سب کچھ کر کے دیکھ لیا مگر کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، ابھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ چیخ چیخ کر وطن عزیز کے بارے میں بیان کر رہی ہے کہ یہ ملک کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ مثلاً ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سالانہ سروے میں محکمہ پولیس قومی سطح پر سب سے زیادہ کرپٹ قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد ٹینڈرنگ، عدلیہ اور محکمہ تعلیم سمیت دیگر محکموں کا نمبر ہے۔ یہ رپورٹ گزشتہ 21 برس سے جاری ہو رہی ہے لیکن مجال ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی بہتری نظر آئی ہو اور یہ صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ صوبائی سطح پر بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ مثلاً صوبائی سطح پر سندھ میں تین شعبوں کو سب سے زیادہ کرپٹ بتایا گیا ہے جہاں محکمہ تعلیم سب سے زیادہ کرپٹ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پولیس اور تیسرے نمبر پر کنٹریکٹ اور ٹینڈرنگ کا محکمہ شامل ہے۔ پنجاب میں پولیس کرپشن میں پہلے نمبر پر ہے، ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ کا شعبہ دوسرے اور عدلیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بدعنوانی میں عدلیہ کو سب سے زیادہ کرپٹ محکمہ قرار دیا گیا ہے، جس کے بعد ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ اور محکمہ پولیس بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ بلوچستان میں ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ کرپشن میں پہلے نمبر پر ہے، پولیس اور عدلیہ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر موجود ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ہم عالمی سطح پر بھی سچ بولنے والوں میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ اسی ادارے کی طرف سے چند ماہ قبل آنے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس میں پاکستان 180 ممالک میں 140ویں درجے پر پہنچ چکا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے 2020 میں پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 124ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ اسی فہرست کے بہترین ممالک کا اگر نام لیا جائے تو ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کو 88 سکور کے ساتھ بہترین قرار دیا گیا ہے۔ یہ ممالک کیسے ترقی اور ایمانداری کی معراج پر پہنچے اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتی چلوں جو چند ماہ قبل پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا رہا۔ یہ واقعہ ٹینس سٹار نوواک جوکو وِچ کے بارے میں ہے۔ سپورٹس سے لگاؤ رکھنے والے سبھی لوگ انہیں جانتے ہیں، جوکووچ کا باپ سربیا کا اور ماں کروشیا کی تھی۔ سربیا اور کروشیا دونوں یوگو سلاویہ مرحوم کے حصے تھے۔ یوگو سلاویہ کیسے ٹوٹا اور کیسے نصف
درجن سے زیادہ ریاستوں میں بٹا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ جوکووچ نے چار سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کر دیا۔ بارہ سال کا ہوا تو جرمنی کی ایک معروف ٹینس اکیڈمی میں بھیج دیا گیا جہاں چار سال تک اسے ٹینس کھیلنے کی تربیت دی گئی۔ چودہ سال کی عمر میں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور یورپ کے سنگل، ڈبل اور ٹیم مقابلے جیتنے لگا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔آج وہ ٹینس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے اور نمبر ون کھلاڑی۔ کوئی ایسا مقابلہ نہیں جو اس نے جیتا نہ ہو۔ جن لوگوں کو اس کھیل میں دلچسپی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ فرینچ اوپن، آسٹریلیا اوپن اور یو ایس اے اوپن کتنے عالی شان مقابلے ہیں جو جوکو وچ مسلسل جیتتا چلا آیا ہے۔ اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں۔ جنوری 2022 میں، آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ٹینس کے عالمی مقابلے ”آسٹریلین اوپن“ ہو رہے تھے۔ دنیا بھر کے ٹینس کے شائقین کی نظریں اس شہر کی طرف تھیں۔ میلبورن آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کا دارالحکومت ہے۔ وکٹوریا کی ریاستی (یعنی صوبائی) حکومت نے جوکو وچ اور مٹھی بھر دوسرے کھلاڑیوں اور سٹاف کو کورونا کی لازمی ویکسی نیشن سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ یہ استثنا ”میڈیکل استثنا“ کہلاتا ہے؛ تاہم پانچ جنوری کو جب جوکووچ میلبورن کے ہوائی اڈے پر اترے تو آسٹریلیا بارڈر فورس نے (جو ایک وفاقی محکمہ ہے) اسے ایئر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ وجہ یہ بتائی کہ جوکووچ استثنا کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس کا ویزا کینسل کر دیا گیا اور اسے اس ہوٹل میں نظر بند کر دیا گیا جہاں اس قسم کے دوسرے مسافروں کو رکھا گیا تھا۔ جوکو وچ کے وکیل عدالت میں چلے گئے۔ دس جنوری کو آسٹریلوی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ جوکو وچ کو ہوٹل سے باہر جانے دیا جائے، مگر اس کے بعد جوکو وچ نے اعتراف کیا کہ ویزا کی درخواست میں اس نے غلط بیانی کی تھی۔ یہ اور بات کہ اس غلط بیانی کا ذمہ دار اس نے اپنے منیجر کو قرار دیا جس نے ویزا فارم بھرا تھا۔ چودہ جنوری کو وفاقی وزیر برائے امیگریشن نے اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جوکو وچ کا ویزا حتمی طور پر منسوخ کر دیا، اس لیے کہ ایسا کرنا عوامی مفاد میں تھا۔ جوکو وچ کے وکلا نے نظر ثانی اپیل کی مگر تین ججوں کے بنچ نے سولہ جنوری کو ان کی درخواست نا منظور کر دی۔ اسی رات جوکووچ آسٹریلیا سے چلا گیا۔
اس اثنا میں آسٹریلیا کی حکومت پر بے پناہ دباؤ پڑا۔ سربیا کی حکومت نے پُرزور احتجاج کیا۔ کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی کھلاڑی کی حمایت میں نکل آئیں۔ آسٹریلیا میں رہنے والے سربیا نژاد افراد نے بھی زور لگایا مگر آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور متعلقہ وفاقی وزیر کا ایک ہی جواب تھا کہ قانون، قانون ہے۔ کسی فردِ واحد کو قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا! یہ ہوتے ہیں ملک، یہ ہوتی ہیں ریاستیں، یہ ہوتے ہیں ریاستی قوانین۔ پھر تبھی یہ قومیں کرپٹ نہیں ہوتیں، کیوں کہ اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ اُن کی ریاست میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں کرپشن کیوں نہ بڑھے؟ ہمارے ہاں تو طاقتور افراد کوئی جرم کر کے پورے پورے ہسپتال کرائے پر حاصل کر لیتے ہیں، طاقتور افراد کے لیے خصوصی پروٹوکولز کا اہتمام کیا جاتا ہے، ان کے لیے رات کو بھی عدالتیں لگتی ہیں، اتوار کو بھی لگتی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کیسز سنے جاتے ہیں جبکہ غریب اور کمزور افراد کے کیسز کی باریاں 3,3سال بعد بھی نہیں آتیں!
اگر حالات ایسے ہوں گے تو کون کہتا ہے کہ کرپشن نہیں ہو گی۔ پھر جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ لگاتا ہے اور خوب لگاتا ہے۔ الغرض جب کسی ریاست میں اداروں کا ڈر ختم ہو جائے، ملک کی رٹ مضبوط نہ رہے، اخراجات اور آمدن کا توازن قائم نہ رہ سکے تو پھر کرپشن ہوتی ہے، لہٰذا اگر حکومت چاہتی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہو تو سب سے پہلے وہ اپنی رٹ مضبوط کرے، طاقتوروں کو سزا دے، چیک اینڈ بیلنس کا نیا سسٹم متعارف کرائے، لوگ کا انصاف کے حوالے سے اعتماد بحال کرائے اور اس سے بھی بڑھ کر عوام کا مورال بلند رکھے تاکہ یہ ملک ترقی کر سکے۔ اسی صورت ہی سات عشروں میں ہر شعبے میں سرایت کرجانے والی کرپشن کی ہلاکت خیزی سے بچاؤ کے لیے پورے سسٹم کی اوورہالنگ ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے وسیع مشاورت اور جامع منصوبہ بندی سے ایک طویل مدتی لائحہ عمل کا متفقہ میثاق بھی ضروری ہے جس کے لیے تمام سیاسی و سماجی مکاتب فکر کے صاحبان دانش کو مل کر کام کرنا اور سازگار فضا بنانا ہو گی تاکہ یہ ملک مزید پیچھے نہ چلا جائے اور ہم پھر بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں!