”ایکسٹینشن“ کے عنوان سے میرا گزشتہ کالم انگریزی محاورے کے مطابق محض ”نوکِ تودہِ برف“ (Tip of the Iceberg) تھا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ اُس ”شیش ناگ“ کی ہلکی سی سسکاری تھی جو اکثر و بیشتر پوری قوت سے پھنکارتا اور زہر کا چھڑکاؤ کرتا رہتا ہے۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹروں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اُن کی جنبشِ لب اور اشارہِ ابرو جمہوری حکمرانوں کے آئینی اور صوابدیدی اختیارات سے بہت قوی ہوتے ہیں۔ مارشل لا سے گریز کرنے یا استطاعت نہ رکھنے والے سپہ سالار ایکسٹینشن کو پُرکھوں کی مقدس میراث سمجھ کر دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ ایکسٹینشن کا بیج، سبھی کی کِشت ِآرزو میں موجود ہوتا ہے۔ دَربار کے باریاب لوگ، اِس کھیت کو پانی لگاتے اور تعریف وتوصیف کی شیرینیوں میں گندھی کھاد ڈالتے رہتے ہیں۔ کونپل سر اٹھاتی اور تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ گرد و پیش جھومر ڈالتی ہوائیں لوریاں دے دے کر اُسے توانا پودا بنا دیتی ہیں۔ کارگاہِ تصویر و تشہیر اِس پودے کو پھولوں اور پھلوں سے لاد دیتی ہے۔ پھر وہ لمحہ آتا ہے جب قوم کو باور کرا دیا جاتا ہے کہ اُس کی تقدیر اِس درخت کے ثمراتِ شیریں سے جڑی ہے۔ اُسی آن صرف تین برس کے لیے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سنبھالنے اور سیاست کی آلائشوں سے دور رہنے کا حلف اٹھانے والے سپاہی کے دِل میں بھی مسیحائی کا احساس انگڑائی لیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ناگزیر خیال کرنے لگتا ہے۔ ایکسٹینشن کا سنپولیا دیکھتے دیکھتے اژدھا بن جاتا ہے اور پھن پھیلا کر پھنکارنے لگتا ہے۔
جنرل راحیل شریف کے عہد کو میں نے بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ میری نہایت سوچی سمجھی اور کامل دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے ہمیشہ فوج سے اچھے تعلقات رکھنا چاہے۔ وہ فوج کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ فوج کی ضروریات کے لیے سول مدّات کی بخوشی کانٹ چھانٹ کر لیتے تھے۔ اُن کی واحد کمزوری یہ تھی کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ فِدویانہ لچک نہیں رکھتے تھے۔ عوام کا منتخب وزیراعظم ہونے کے ناتے ریڈلائن سے آگے تک کی پسپائی اُنہیں قبول نہیں تھی۔ یہیں سے نوازشریف کے ناقابلِ برداشت ہونے کا تصور کشید کیا جاتا اور اُس کی بنیاد پر پالیسیاں وضع کی جاتی رہیں۔ 2013 ہی سے (بلکہ دو سال قبل ہی) عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی حکمتِ عملی بروئے کار آ چکی تھی۔ ’ایکسٹینشن‘ کو ایک اضافی یا انفرادی معاملہ خیال کیا جا سکتا ہے۔
راحیل شریف کے دِل میں، آغازِ سفر سے ہی، نوازشریف کے لیے کوئی نرم گوشہ نہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک توانا حلقے کی رائے تھی کہ ”مشرف پر مقدمے کو سمیٹ کر اُسے باہر جانے دیا جائے۔ فوج اپنے سابق چیف کے بارے میں شدید حسّاسیت رکھتی ہے۔ راحیل شریف کی تُرش روی کا سبب بھی یہی ہے۔ مشرف سے گلو خلاصی کے بعد یہ سب سے بڑا اضطرابیہ (IRRITANT) دور ہو جائے گا۔“
مارچ 2016 میں مشرف بصد جاہ و جلال پاکستان سے رخصت ہو گیا۔ لیکن اسلام آباد کا موسم بدلا نہ بحر کی موجوں کا تلاطم کم ہوا۔ واضح اعلان کے باوجود کہ چیف نومبر میں گھر چلے جائیں گے، ایکسٹینشن کا شیش ناگ پھنکارتا رہا۔ نوازشریف کے سامنے سب سے آسان راستہ یہ تھا کہ وہ 2010 کے یوسف رضا گیلانی اور 2019 کے عمران خان کی طرح شیش ناگ کے سامنے سر بسجود ہو جاتے۔ شدید اندورنی اور بیرونی دباؤ کے باوجود نوازشریف نے یہ راستہ نہ چُنا۔ اُن کی افتاد طبع خود کو اِس نوع کی خودسپردگی پر آمادہ نہ کر سکی۔
پاناما کا بہانہ راحیل شریف کے ہاتھ کا تازیانہ بن گیا۔ خبر میڈیا کی زینت بنتے ہی وہ وزیراعظم سے ملنے آئے۔ نوازشریف طبی معائنے کے لیے تین بار لندن کے ڈاکٹر سے تاریخ طے کر کے ملتوی کر چکے تھے۔ اَب اپریل کے دوسرے ہفتے میں ڈاکٹر سے اُن کے معائنے کا وقت طے تھا اور وہ گریزاں تھے۔ جنرل راحیل نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ پاناما کو چھوڑیں۔ اَپنے علاج پر توجہ دیں اور ضرور لندن جائیں۔ اِس ملاقات کے بارے میں ”مصدقہ ذرائع“ کا حوالہ دے کر خبر آئی کہ ”آرمی چیف نے وزیراعظم نوازشریف سے کہا ہے کہ وہ پاناما کے مسئلے کو جلد حل کریں۔ اِس سے عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔“ وزیراعظم ہاؤس نے اِس کی تردید کی۔ ’آئی۔ایس۔پی۔آر‘ چُپ رہا۔ نوازشریف 13 اپریل کو لندن روانہ ہو گئے۔
صرف چھ دن بعد، 19 اپریل کو جنرل راحیل شریف ایک فوجی تقریب میں شرکت کے لیے سگنلز رجمنٹ کوہاٹ گئے جہاں اُنہوں نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ اُن کی تقریر کا یہ حصہ اگلے دن بطور خاص اخباری شہہ سرخیوں کی زینت بنا۔ انہوں نے کہا…… ”دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ اُس وقت تک مستقل امن اور استحکام کا مقصد حاصل نہیں کر سکتی جب تک کرپشن کے ناسُور کو جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکا جائے۔ پاکستان کے استحکام، یک جہتی اور خوش حالی کی خاطر غیر جانبدارانہ احتساب لازم ہے۔ مسلح افواج اِس مقصد کے لیے ہر بامعنی کوشش کی حمایت کریں گی۔“ دہشت گردی کے خلاف جنگ برسوں سے جاری تھی لیکن پاناما کے ظہور کے ساتھ ہی جنرل راحیل شریف نے پہلی بار اِس کا ناتا کرپشن سے جوڑ دیا۔ شیش ناگ کی ایک اور پھنکار اگلے ہی دن اِس خبر کے ساتھ سامنے آئی کہ جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے الزام میں بعض سینئر فوجی افسران کو برطرف کر دیا ہے۔ اُنہی دنوں وہ کورکمانڈرز کے ایک اجلاس میں بھی کرپشن پر خوب گرجے برسے۔
اپنے گزشتہ کالم میں، میں نے شیش ناگ کی ایک سسکاری کا ذکر کیا تھا۔ وزیراعظم کو گلگت جانے کی جلدی تھی لیکن وہ دروازے کی طرف دو تین قدم اٹھانے کے بعد رُک گئے۔ بدستور میرے کندھے پر ہاتھ رَکھے ہوئے کہنے لگے …… ”صدیقی صاحب! آپ ہی سوچیں۔ کیسے دی جا سکتی ہے ایکسٹینشن؟ یہ کوئی طریقہ ہے۔ بہت سے اعلیٰ افسر لائن میں لگے ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے دل میں پروموشن کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر آرمی چیف چھ چھ سال بیٹھا رہے تو یہ فوج سے بھی زیادتی ہے۔ مارشل لا والے آتے ہیں اور دس دس سال تک دوسروں کا راستہ روک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خود ہی اپنے آپ کو ایکسٹینشن دیتے رہتے ہیں۔ میں اِس کے سخت خلاف ہوں۔ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کو دباؤ میں لا کر پچھلے چیف نے ایکسٹینشن لی۔ اَب یہ تُل گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ایسے نہیں چلے گا اِس ملک کا نظام۔ میں کوئی نوکری نہیں کر رہا کہ اُسے بچانے کے لیے جو کچھ یہ کہیں مانتا چلا جاؤں۔ میں اس طرح کے دباؤ میں ایک دن کی ایکسٹینشن بھی نہیں دوں گا۔ لگا لیں مارشل لا اگر لگاتے ہیں تو۔“
ریموٹ اٹھا کر ٹی۔وی بند کرتے ہوئے میاں صاحب بولے …… ”کہاں ہیں وہ جو کہتے تھے کہ مشرف چلا گیا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب انہیں ملاقات کا ٹائم بھی نہیں ملتا ہو گا۔“
مجھے لگا کہ شاید ایکسٹینشن کے شیش ناگ کی کوئی تازہ پھنکار، کسی نامہ بر کے ذریعے میاں صاحب تک پہنچی ہے۔ میں نے پوچھا۔
”اب ایکسٹینشن کا یہ پیغام کون لے کر آیا ہے آپ کے پاس؟“
وزیراعظم نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا:”The Top man himself“
”بڑے مَنصب پہ بیٹھا شخص بذاتِ خود“