اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کیسسز میں سٹیٹ کی غیر ذمہ داری پر موجودہ اور سابق وزرائے اعظم کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا عندیہ دے دیا۔اٹارنی جنرل کہتے ہیں کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلے نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے عوام کو سڑکوں پر آنا ہوگا۔
نیو نیوز کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی و بلاگر مدثر نارو کی بازیابی کیلئے دائر درخواست کی سماعت کی ۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، درخواست گزار کی جانب سے ایمان زینب مزاری اور انعام الرحیم ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی گئی ہے۔ وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں، حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے ۔ عدالت سے استدعا ہے کہ کچھ وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا کام نہیں کہ لوگوں کو ڈھونڈے نہ ہی ڈھونڈ سکتی ہے ۔ ریاست کی خواہش ہی نہیں ہے ۔ جبری گمشدگیوں کا کمیشن بھی آئین کے خلاف بنا ہے۔ صرف فیملیز اس کمیشن میں جاتی ہیں جنہیں تاریخ دے دی جاتی ہے ۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ قانون بنا رہے ہیں قانون کی تو ضرورت ہی نہیں،ہزاروں فیملیز ہیں جنہیں ریاست سنبھال ہی نہیں رہی ۔ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہو سکتی ۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا یہ بھی کہناتھاکہ آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جا سکا یہ تو سیدھا آرٹیکل چھ کا جرم ہے۔
اس پراٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ ایسا نہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دور میں شروع ہوا یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا،ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ کتابیں لکھتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں،اس معاملے کا ایک بیک گراؤنڈ ہے کہ اسی ملک میں خود کش دھماکے ہوتے تھے ۔بہت سارے کیسز ہیں جن میں لوگوں نے اپنی مرضی سے بارڈر کراس کیا۔
انہوں نے کہا کہ سینکڑوں پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر بارڈر کراس کیا اور افغانستان چلے گئے،اب وقت آ گیا ہے کہ اس کو روکا جائے۔ مدثر نارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ اسے لاپتہ کر دیا جائے ۔ صحافی کا کام ہے کہ وہ تنقید کرے،ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں کی جا سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے ۔ دہشت گرد کو بھی ماورائے عدالت نہیں مار سکتے ۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ والا کسی کو جا کر اٹھا لے لوگ چار چار سال سے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کے پاس جا رہے ہیں،جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا جو کام تھا وہ اس نے نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ المیہ یہ ہے کہ ہم نے جغرافیائی حالات اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ کل تو ایک ایس ایچ او کہے گا کہ فلاں شخص اس کے خلاف بات کر رہا ہے تو اس کو اٹھا لو،عدالت کہہ سکتی ہے کہ شہری جس دور میں لاپتہ ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل چھ کے جرم میں جسے سزا ہوئی ہم تو اس سزا پر عمل درآمد نہیں کر پائے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے پر کسی کا احتساب نہیں ہو رہا ہر کوئی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دیتا ہے،ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر وہاں لگا دیں ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر کیوں لگائی جائیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس بات کی توقع کر رہی تھی کہ وفاقی کابینہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی کہ یہ پالیسی ہے ۔اسلام آباد سے ایک بچے کو اٹھا کر لے گئے اور اس نے بعد میں بیان دیا کہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں ۔ایران میں یہ سلسلہ ایسے ہی رکا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی فیصلوں سے بھی علاج ہوتا ہے اگر ذمہ داروں کا تعین کر لیا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ 1970ءسے یہاں ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل آپ بتائیں کہ عدالت کیا کرے؟،اگر ریاست اپنا کردار ادا کرتی تو لاپتہ شخص کا بچہ یہاں نہیں آتا یا تو چیف ایگزیکٹوز ذمہ داری لیں، یا پھر ان کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔
کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہاکہ ریاست میں ہونے والی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وزیراعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں ۔ میڈیا پر پریشر ہے جو لاپتہ افراد کی فیملیز کی مشکلات نہیں دکھا سکتا ۔
چیف جسٹس نے کہاکہ جب ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات تو ہو ہی نہیں سکتی ۔ عدالت کی معاونت کریں کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟ لاپتہ افراد کے لیے کمیشن کی موجودگی ہی آرٹیکل 16 کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ ریاست کا رد عمل کیا ہوتا ہے ۔ رد عمل واضح اور نظر آنا چاہیے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا ریاستی پالیسی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت تو ایک فیصلہ ہی دے سکتی ہے، آپ معاونت کریں، ہم آرڈر جاری کریں گے،عدالت اس بات کو سراہتی ہے کہ وزیراعظم نے مدثر نارو کی فیملی سے ملاقات کی ۔جبری گمشدگی کرپشن کی بدترین مثال ہے، جو کرپشن کے خلاف ہیں انہیں دیکھنا چاہیے ۔
اٹارنی جنرل اور وکلا کو عدالت کی معاونت کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟،ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں کل ہی اس معاملے پر عدالت کی معاونت کے لیے تیار ہوں ۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ کاش میں کہہ سکتا کہ کل ہی معاونت کر سکتا ہوں ۔ مجھے عدالت کی معاونت کے لیے کچھ وقت درکار ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 18 جنوری تک ملتوی کر دی۔