مسائل میں گھرے پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بڑوں کی ساری توانائیاں کھینچا تانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جو جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے، اسے اتنی ہی زیادہ فکر ہوتی ہے کہ وہ اس عہدے کا تحفظ کیسے کرے۔ اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے، کوئی تعمیری منصوبہ بنانے، خرابیوں کی اصلاح کرنے اور اپنے دائرہ کار کے اندر ہونے والے معاملات میں بہتری لانے کے بجائے، اس کا سارا وقت صرف اس مقصد کی نذر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی کرسی کو کس طرح مضبوط بنائے۔ چھوٹے چھوٹے اہلکاروں سے لے کر بہت بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد اکثر اسی فکر میں ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں۔ جہاں تک بڑے بااختیار عہدوں پر براجمان حکومتی عہدیداروںیا حکمرانوں کا تعلق ہے ان کا بھی زیادہ وقت اسی کام میں گزرتا ہے کہ اپنی کرسی کے استحکام کے لئے کیا کچھ کیا جائے اور مدمقابل سیاستدانوں کو کس طرح مجبور اور بے بس کر دیا جائے۔ اس بات کو جانچنے کا کوئی خاص پیمانہ تو نہیں لیکن یہ کہنا کافی حد تک درست ہو گا کہ جس طرح کے سیاسی تماشے ہمارے ہاں، ہر دور میں جاری رہتے ہیں، اس کی مثال کم کم ملکوں ہی میں ملے گی۔ ا س کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست ہر پاکستانی کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے۔ جس کے گھر کھانے کو کچھ نہیں وہ بھی سیاست کے سارے اتار چڑھاؤ سے واقف ہے۔ ہماری محفلوں کا موضوع بھی سیاست بازی ہی ہے۔ لہٰذا کسی کے پاس وقت نہیں کہ وہ سنجیدگی سے بڑے قومی مسائل پر غور کرئے اور ان کا حل سوچے۔
گزشتہ ہفتے کراچی میں آرٹس کونسل کے زیر اہتمام اردو کانفرنس کے انعقاد کے بعد ایک بار پھر ایسی اکا دکا آوازیں سنائی دینے لگی ہیں کہ ہم ابھی تک اپنی قومی زبان ’’اردو‘‘ کو پوری طرح اپنانے اور سرکاری زبان کے طور پر رواج دینے سے کیوں قاصر ہیں؟ یہ سوال نیا نہیں۔ وقفے وقفے بعد اٹھتا ہی رہتا ہے۔ لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ 1973 میں اتفاق رائے کے ساتھ منظور اورنافذ ہونے والے آئین پاکستان کی شق 251 کہتی ہے ’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ 15 برس کے اندر اندر اسے سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی زبان بنانے کے لئے انتظامات کئے جائیں گے‘‘۔ آرٹیکل 251 کی ذیلی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ ’’جب تک اردو کے سرکاری زبان کے طور پر استعمال کے انتظامات نہیں کر لئے جاتے، انگریزی بطور سرکاری زبان استعمال کی جا سکے گی‘‘۔
1973 میں منظور کی جانے والی اس شق کے مطابق 1988 میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے انتظامات مکمل ہو جانے چاہیے تھے۔ 1977 میں مارشل لاء نافذ ہوا جو 1988 تک جاری رہا۔ اس دوران بے چارہ آئین ہی معطل رہا۔ اس کی شق 251 کو کون پوچھتا۔ بار بار نفاذ اردو کی تاریخ میں توسیع ہوتی رہی اور انگریزی کا استعمال جاری رہا۔ اب 1973 کے آئین کو نافذ ہوئے انچاس برس ہونے کو ہے۔ کہاں پندرہ سال اور کہاں انچاس برس۔ لیکن اردو آج بھی ہماری سرکاری زبان نہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کے امکانات زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتے۔ ستمبر 2015 میں سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں نہایت اہم اور تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئینی تقاضے کے مطابق اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کیا جائے۔ کیونکہ آزادی کے کئی سال بعد تک سامراجی زبان کو اختیار کئے رکھنا آزادی کی روح کے منافی ہے۔ اس وقت اردو کے لئے ایک باقاعدہ ٹائم ٹیبل بھی جاری ہوا تھا۔ اس بات کو بھی اب چھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بات وہیں کی وہیں ہے۔
اسی سال، جون میں وزیر اعظم ہاؤ س سے جاری ہونے والے ایک سرکلر میں تمام وزارتوں اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایت کی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے جس بھی پروگرام یا تقریب کا انعقاد کیا جائے، اس کی تمام کارروائی اردو میں ہو گی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ گزشتہ حکومت کے دور میں بھی ایسا ہی ایک فرمان جاری ہواتھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے اندر یا باہر ہونے والی تقریبات میں صدر پاکستان ، وزیر اعظم ، وزراء اور تمام سرکاری عمال اردو میں تقاریر کریں گے۔ اس دور میں نفاذ اردو کے لئے باضابطہ طور پر ایک وزارتی کمیٹی بھی تشکیل پائی تھی۔
تین ماہ قبل یہ معاملہ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا۔ اردو کے نفاذ میں کوتاہی کے حوالے سے توہین عدالت کی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دئیے کہ ’’مادری اور قومی زبان کے بغیر قومی تشخص کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خیال میں تو ہمیں عربی اور فارسی بھی سیکھنی چاہئے‘‘۔ جسٹس صاحب کے یہ ریماکس اور ان کا متوقع فیصلہ، کتنا موثر ثابت ہو گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اب تک کی صورتحال تو یہی بتا رہی ہے کہ ہم اردو زبان سے آنکھ مچولی ہی کھیل رہے ہیں۔ وہ دن دور دور تک دکھائی نہیں دیتا جب آئین کی شق 251 کے الفاظ عملی جامہ پہن سکیں گے اور اردو نہ صرف سرکاری زبان کے طور پر استعمال ہو گی بلکہ ہم اس پر فخر بھی کر سکیں گے اور غلامی کی نشانی پر فخر کرنے کی بیماری ختم ہو جائے گی۔
اپنی قومی اور مادری زبانوں میں تعلیم دینے والے ممالک کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن صرف چین اور جاپان ہی کو لیجئے۔ اس لئے کہ ان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، اور صنعت و حرفت میں ان کا بڑا نام ہے۔ یہاں ابتدائی درجوں سے اعلیٰ تریں درجوں تک تعلیم چینی اور جاپانی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ انہوں نے جدید تریں تحقیق کو اپنی زبانوں میں ڈھال لیا ہے۔ چینی اور جاپانی زبانوں میں اعلیٰ معیار کی سائنسی تدریسی کتب دستیاب ہیں۔ ہم بات کو ادھر ادھر گھما کر کچھ بھی کہہ لیں حقیقت یہ ہے کہ اردو کو اعلیٰ سطح، بلکہ سیکنڈری سکول سطح تک بھی ذریعہ تدریس اور زبان تعلیم و تدریس بنانے کے لئے کچھ کام نہیں ہوا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار زوال پذیر ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان کے بجائے ایک غیر زبان کو اپنا لیا ہے جو ہمارے تعلیمی عمل پر منفی اثرات ڈال رہی ہے؟ اس سوال کا جائزہ ہم نے کبھی لیا نہ اسکی ضرورت محسوس کی۔
جہاں تک اردو کو سرکاری طور پر رائج کرنے کا معاملہ ہے، وزیر اعظم کے حکم نامے کے باوجود سارا فائل ورک انگریزی میں ہو رہا ہے۔ ساری سمریاں انگریزی میں بنتی ہیں۔ ساری نوٹنگ اور ڈرافٹنگ انگریزی میں ہوتی ہے۔ کابینہ کی تمام تر کاروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے سارے فرمان انگریزی میں جاری ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کی تمام کمیٹیوں کی کارروائیاں انگریزی میں تحریر ہوتی ہیں۔ تمام پریس ریلیز انگریزی میں جاری ہوتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے فیصلے اور جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کے باوجود ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس کی ساری کارروائیاں انگریزی میں ہوتی ہیں۔ تمام پٹیشنز انگریزی میں آتی ہیں۔ تمام فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا نفاذ اردو سے متعلق فیصلہ بھی انگریزی میں جاری ہوا۔
آئین کے آرٹیکل 251 میں پندرہ سال تک انتظار کرنے والی اردو کو اب نصف صدی ہونے کو ہے اور انتظار ختم ہونے کے آثار اب بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔