اسلام ہمیں امن اور انسانیت کا درس دیتا ہے ،اسلام احترام انسانیت کا دین ہے لیکن اس وقت تک جب تک کوئی مسلمانوں پر ظلم نہ کرے۔ اسلام پہل کی اجازت نہیں دیتا مگر اگر کفار مسلمانوں پر ظلم کریں تو پھر اللہ ہمیں ان کے خلاف جہاد کا حکم دیتا ہے ۔ لیکن کیونکہ آج کا موضوع کچھ اور ہے لہذا میں اپنی موضوع پر ہی بات کروں گی۔اسلام پوری دنیا کو امن کی نظر سے ہی دیکھتا ہے ۔اسلام وہ سچا دین ہے جو ساری دنیا میں امن دیکھنا چاہتا ہے۔یعنی بلا امتیاز رنگ و نسل نوع آدم کے ہر فرد سے حسن سلوک اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کا درس دیتا ہے ۔اعلی انسانی اقدار کا تحفظ اور اسلام میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے ،اس کے احترام و اکرام کی تعلیم دی گئی ،انسان ہونے کے ناطے اسے پوری کائنات پر فضلیت و برتری عطا کی گئی ۔ارشاد ربانی ہے : ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور خشکی اور دریا میں انہیں سوار کیا اور روزی دی انہیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے انہیں بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی ہے (سورہ بنی اسرائیل)
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں انسانوں کو سب سے اچھی شکل و صورت عطا فرمائی ۔ ارشاد ربانی ہے: ہم نے آدم کو اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے (سورہ والتین) اسلام نے اعلان کیا ہے کہ دنیا کی تمام اللہ حق جل شانہ نے انسانوں کیلئے پیدا فرمائیں ہیں اور انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے تمہارے نفع کیلئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں میں نے سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے( سورہ البقرہ)
اسلام میں انسانی حرمت و شرافت کی کتنی پاس داری ہے اس کا انذازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کا احترام موت کے بعد بھی ضروری ہے اور یہ حکم ہے کہ مردے کو پوری عزت و احترام کے ساتھ غسل دیا جائے، صاف ستھرا کفن پہنا کر خوشبو سے معطر کیا جائے،نماز جنازہ پڑھی جائے اور دفن کیا جائے، انسان ہونے کے ناطے ہر شخص کا احترام ضروری ہے ایک با رغیر مسلم کا جنازہ گزر رہا تھا،سرکار دو عالم ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ موت ایک خوف ناک چیز ہے پس تم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جایا کرو ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: اَلیسئت نفسا، انسان تو یہ بھی ہے ۰مشکوہ شریف)
زمانہ جاہلیت میں جنگ کے دوران دشمنوں کے ساتھ ہر برا سلوک روا رکھا جاتا تھا ان کے جسمانی اعضاء کا ٹ دئیے جاتے ،دشمنوں کی کھوپڑیوں میں شراب پی جاتی ،اسلام نے انسانی حرمت کو پامال کرنے والے ان کاموں سے سختی کے ساتھ روک دیا اور مردوں کی ہر طرح کی بے حرمتی ناجائز قرار پائی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:مردے کی ہڈی کو توڑنا زندہ انسان کی ہڈی توڑنے کی مانند ہے۔اسلام میں انسانی عظمت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسلامی عقیدے کے مطابق جتنے انبیا اور رسل دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے تشریف لائے وہ سب کے سب انسان تھے یہودی حضرت دائود ،حضرت یعقوب،اور حضرت عزیز علیہم السلام کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک خداکا بیٹا تھا،عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی خدا کے بیٹے قادر مطلق اور تین ارکان الوہیت میں سے ایک ہیں۔
اللہ تعالی نے انسانوں کو اپنے فضل و کرم سے عقل و شعور کی بیش بہا دولت سے نوازا ہے،جس کی بدولت وہ ساری کائنات پر حکمرانی کرتے ہیں عقل و شعور سب انسانی خوبیوں اور کمالات کاسرچشمہ ہے،ارشاد نبوی ہے:اللہ کی تمام پیدا کردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہے۔اسی اہمیت کے پیش نظر،اسلام نے عقل کی حفاظت پر خصوصی توجہ دی کہ عقائد اور اخلاق و اعمال میں اعتدال سے ہی قائم رہتا ہے اور انسان کے لیے حقوق و فرائض کی انجام دہی آسان ہوتی ہے،نیز قرآن کریم میں جگہ جگہ عقل کے استعمال اور تفکر کی دعوت دی گئی ہے،تاکہ انسان کائنات اور اس کے نطام پر غور و فکر کرکے نظام الہی اور پیام ربانی کی حقانیت کا اعتراف کرے اور اس کے مطابق زندگی استوار رکھنے کا عہد کرے۔
ارشاد نبوی ﷺہے:مخلوق اللہ کا کنبہ ہے،اللہ کے نزدیک اس کی مخلوق میں پسندیدہ وہ شخص ہے،جو اللہ کے کنبے کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتا ہو۔قرآن کریم نے انسانی وحدت و مساوات کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے ہی جگہ جگہ ،،یایُھاالناس،،اور یا بنی آدم،، جیسے الفاظ کے ذریعے تمام افراد انسانی کو اپنے لازوال پیغام کا مخاطب بنایا ہے اور سب کو یکساں طور پر دُنیا و آخرت میں صلاح و فلاح کی دعوت پر لبیک کہا،انہیں یایھاالذین آمنو،،سے خطاب کیا گیا ،انسانوں میں نسلی یا طبقاتی امتیاز اور فرق کو روا نہیں رکھا گیا۔حجتہ الوداع کے موقع پر سرکار دو عالم ﷺنے اپنے تاریخی خطبے میں جن بنیادی انسانی حقوق سے متعلق وصیت و ہدایت فرمائی،ان میں انسانی وحدت و مساوات کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو یقینا تمھارا پروردگار ایک ہے،تمھارا باپ بھی ایک ہے،تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ،یقینا تم میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پاک باز ہو،کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں،مگر تقویٰ کی بنا پر،تمام انسان اسلامی تعلیمات کی رو سے بھائی بھائی ہیں ،حسب نسب اور خاندان و قبائل تعارف اور شناسائی کا ذریعہ ہیں:اور ہم نے تمھیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں پیدا کیا ہے،تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔نبی رحمتﷺنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :اے اللہ،میں گواہی دیتا ہوں کہ سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (سنن ابو دائود)محسن انسانیتﷺنے صرف اس کا اعلان ہی نہ فرمایا،بلکہ اس اصول کو انسانی زندگی کا دستورالعمل بنا دیا،ساری زندگی اس پر عمل کرکے دکھایا اور اپنے پیروکار وں کے سامنے اس کا ایسا واضح نمونہ قائم فرمایا کہ وہ بھی اس دستور اور اصول کو فراموش نہ کر سکے اور انسانی اخوت و وحدت اور مساوات کا تصور ان کے اعمال و اخلاق میں ہمیشہ جلوہ گر نظر آیا۔اسلام کے احکام و اعمال میں بھی مساوات انسانی کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے،نماز میں سب لوگ اللہ کے حضور ایک ہی حثییت سے کھڑے ہوتے ہیں،کسی بادشاہ امیر یا عالم کے لیے کوئی خاص جگہ مخصوص نہیں ۔رمضان کے روزوں میں روزے داروں میں بھی امیر وغریب کا کوئی فرق نہیں ہوتا،حج میں سب ایک ہی طرح کا احرام باندھتے ہیں اور حج کے اعمال یکسانیت و اجتماعیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔دین اسلام رحمت ہے بلا تفریق قوم اور مذہب تمام انسانوں پر رحم و کرم اس کی خصوصیات میں داخل ہے اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا تہذیب میں انسانیت نوازی اور عام انسانوں پر رحم وکرم کا تصور نہیں ملتا جو اسلام نے پیش کیا ہے۔